کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 49
(۲) شیعہ اور خارجی:
پس بجائے دو گروہوں میں صلح ہونے کے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت دو گروہوں میں بٹ گئی۔ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے خارج ہو گئے ان کا نام خارجی ہوا اور جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قائم رہے ان کا نام شیعہ علی رضی اللہ عنہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت پڑا)
(۳) فرقہ قدریہ:
زمانہ عبد الملک بن مروان[1]میں ایک شخص معبد نامی شہر بصرہ میں ظاہر ہوا۔ جس نے تقدیر کا انکار کیا۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ[2] کہتے ہیں کہ معبد مذکور نے انکار تقدیر کا عقیدہ ایک نصرانی شخص سوسن نامی سے لیا تھا۔ جو کچھ مدت مسلمان رہ کر مرتد ہو گیا تھا۔[3]
(۴) فرقہ جہمیہ:
ہشام بن عبد الملک کے عہد میں ایک شخص جعد بن درہم نے صفات الہیہ سے انکار شروع کیا اس کا انکار قرآن و حدیث کی تصریحات اور خیار امت یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ و تابعین کے عقائد کے بالکل خلاف ہے اس اختلاف نے ملکی فتنہ کی آگ میں بھی ہیزم کشی کا کام کیا کہ جعد مذکور نے سیاسی تحریکوں میں خالد قسری حاکم عراق اور حجاج بن یوسف مشہور ظالم کی مخالف پارٹی کا پارٹ لیا اور وہ ہر ممکن طور سے ان کی مدد کرتا تھا جس کی پاداش میں خالد قسری نے جعد مذکور کو بقر عید کے دن شہر واسط جس کو حجاج بن یوسف نے آباد کیا تھا قتل کر دیا۔
[1] عبد الملک بن مروان کا زمانہ حکومت ۶۵ھ سے ۸۶ھ تک رہا۔
[2] امام اوزاعی رحمہ اللہ کا نام عبد الرحمن بن عمرو ہے اہل شام کے جلیل الشان امام تھے کبار اتباع تابعین سے تھے ۱۵۷ھ میں فوت ہوئے رحمہ اللہ ۔
[3] تقدیر کا مسئلہ بموجب حدیث صحیحین کے امور ایمان میں سے ہے جملہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور خیار تابعین کا اس پر ا تفاق ہے اس کا انکار کفر ہے لفظ تقدیر کے معنی ہیں اندازہ کرنا اور مراد اس سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو بھی پیدا کیا یا اس کو پیدا کرنے والا ہے اس کے ہر پہلو کا اندازہ اس کے علم میں اس چیز کی پیدائش سے پیشتر ہوتا ہے کیونکہ اس کا علم ازلی ہے حادث نہیں ہے سورہ حدید پ ۲۷ کی آیت الا فی کتب من قبل ان نبرء ھا کا مفاد یہی ہے۔