کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 48
کے متعلق تو نہیں بلکہ ان کے نظم و نسق کے خلاف نکتہ چینی اور سیاسی ایجیٹیشن شروع کر دی جس سے عثمانی اور سبائی دو جماعتیں بن گئیں ۔ عثمانی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حامی تھے اور سبائی ان کے برخلاف۔ آخر کار۱۸ ماہ ذی الحجہ سن۳۵ھ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں کے ہاتھ سے شہید ہو گئے (انا للہ وانا الیہ راجعون)
حضرت خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ تابعی کا قول ہے۔
’’امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ سال تک (خلافت کا) کام کیا آپ پر کسی نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔ حتی کہ چند فاسق آئے (اور اعتراض کرنے لگے) بخدا اہل مدینہ نے ان کے بارے میں مداہنت کی‘‘ (ص۳۲ تاریخ صغیر اللامام البخاری رحمہ اللہ )۔
آپ کے بعد مہاجرین اور انصار کے متفقہ انتخاب سے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ عثمانیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کے انتقام کا مطالبہ کیا اور معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں خود اس کام کو کروں گا۔ لیکن ذرا شورش ٹھنڈی ہوجانے دو۔ اس پر بگاڑ ہو گیا۔ اور اہل شام نے جو عثمانی تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کر لیا۔ دوسری طرف ان کے مقابلہ لا لحب علی بل لبغض معاویۃ سب سبائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مل گئے۔ اور باقاعدہ صف آرائی سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ مسلمانوں میں یہ سب سے پہلی جنگ ہے۔ آخر جنگ صفین میں اس بات پر لڑائی تھمی کہ ایک منصف (حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اور ایک منصف (حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فاتح مصر) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مقرر ہوئے اسے تاریخ اسلام میں امر تحکیم کہتے ہیں ۔ سبائی فتنہ انگیز تھے صلح نہیں چاہتے تھے اس لئے اس بہانے سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کو چھوڑ کر ایک انسان کا حکم مانا ہے اور یہ بموجب آیت افغیر اللہ ابتغی حکما (پ۸ انعام) شرک ہے اور مشرک کی اطاعت جائز نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے خارج ہو گئے۔ اور پھر انہوں نے اس امر میں یہاں تک ترقی کی کہ ہر کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے۔ اور یہ کہ وہ سدا دوزخ میں رہے گا (معاذ اللہ)