کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 46
ستھری چیزوں سے روزی بخشی پس انہوں نے آپس میں اختلاف کیا تو علم آچکنے کے بعد ہی کیا۔ بیشک آپ کا رب قیامت کے دن ان امروں میں جن میں وہ اختلاف کرتے رہے (حق حق) فیصلہ کر دے گا۔ پس (اے ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آپ (بالفرض ان کے اختلاف کے متعلق) جس کی خبر آپ پر نازل کی گئی شک و تردد میں ہوں تو ان (علماء) سے دریافت کر دیکھئے جو آپ سے پہلے کتاب الٰہی کو پڑھتے ہیں ۔ بے شک یہ جو کچھ آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے آیا ہے سب حق حق آیا ہے۔ پس آپ ہرگز ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں ۔
اس آیت کے نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایالا اشک ولا اسئل[1] یعنی نہ مجھے اس میں شک ہے اور نہ میں اس کی نسبت دریافت کرتا ہوں ۔
باقی رہا امر چہارم کہ سنت پر قائم رہنے والا کونسا فرقہ ہے سو سنت کی قید سے کسی مزید تفتیش کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ہر فرقے کے عقائد اور طریق عمل کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ علماً و عملاً آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے طریق عمل پر زندگی گذارنا کن لوگوں کا مقصد ہے اور خلاف قواعد علمیہ خودرائی اور تاویلات فاسدہ و رکیکہ کی پیروی سے پرہیز کرتے ہوئے اور یمین و یسار کی کدو کاوش سے بچ کر دین کی حالت کو ٹھیک ٹھیک اسی صورت پر رکھنا جس پر آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) صحابہ رضی اللہ عنہ کی مقدس جماعت کو چھوڑ گئے تھے۔ اور بعد ازاں سلف امت میں اسی پر عمل جاری رہتے ہوئے صحیح اور معتبر وسائط سے ہم تک پہنچانا کن لوگوں کا وطیرہ ہے؟ اور اپنے حال وقال اور وضع اور چال اور اعتقاد و عمل اور عبادت و ریاضت (تصوف) اور تمدن و سیاست غرض ہر امر زندگی سے ثابت کرنا کہ ہمارا اوڑھنا بچھونا اور دل کی خواہش و تمنا اور حاصل دین اور محصول دنیا بس صرف اتباع کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اور معیت جماعت صحابہ رضی اللہ عنہ ہی ہے کن لوگوں کا کام ہے ؎
[1] تفسیر فتح القدیر للعلامۃ الشوکانی جلددوم۔