کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 43
جس پر وہ (کسی وقت قائم) تھے مگر ایسی صورت میں کہ جھگڑے میں پڑ گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ماضربوہ لک الا جد لابل ھم قوم خصمون (یعنی آپ کے سامنے نہیں پیش کرتے یہ اسے (حضرت عیسی علیہ السلام کو) مگر جھگڑے کے طور پر بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو۔‘‘
تنبیہ:
بعض لوگ روایت اختلاف امتی رحمۃ کو حدیث صحیح قرار دے کر اس امت کے ہر اختلاف کو بے پرواہی سے دیکھتے ہیں ۔ لہٰذا ان کو اختلاف کے بدنتائج نہیں سوجھتے پس مناسب ہے کہ اس موقع پر اس غلط فہمی کو بھی دور کر دیا جائے۔
سو معلوم ہو کہ محدثین کے نزدیک یہ روایت ثابت نہیں ہوئی امام سخاوی رحمہ اللہ نے المقاصد الحسنتہ میں اور ملا علی قاری حنفی نے موضوعات کبیر میں اور شیخ محمد طاہر پٹن گجراتی رحمہ اللہ نے خاتمہ مجمع البحار میں مطولاً و مختصراً بہت سے محدثین کے نزدیک اس کا بے اصل ہونا ذکر کیا ہے لہٰذا اس کا اعتبار کر کے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے اور اختلاف امت کے غم سے بے فکر نہ ہونا چاہئے۔ اللھم الف بین قلوب المسلمین واصلح ذات بینھم۔
۲۔امردوم: یعنی اس امت میں اختلاف پیدا ہونے اور مختلف فرقے بن جانے کی پیش گوئی کا بیان یوں ہے کہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لا تقوم الساعۃ حتی تاخذ امتی باخذ القرون قبلہا شبرا بشبر و ذراعاً بذ راعٍ فقیل یا رسول اللّٰہ کفارَ سِ و الروم قال ومن الناس الا اولئک[1]
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک میری امت پہلے زمانوں کی روش اختیار نہ کر لے بمقابلہ بالشت کے بالشت اور بمقابلہ ہاتھ
[1] صحیح بخاری کتاب الاعتصام جلد دوم ص ۱۰۸۸ مطبع نظامی کانپور