کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 41
تذکیر:۔
اختلاف و فرقہ بندی سے صرف دین ہی میں خرابی پیدا نہیں ہوتی بلکہ دنیوی نظام میں بھی تباہی و بربادی ہو جاتی ہے۔ دوسری قوموں کے مقابلے میں رعب اٹھ جاتا ہے۔ وقار و بھرم جاتا رہتا ہے۔ ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ ارادے پست ہو جاتے ہیں اور ہمت بیٹھ جاتی ہے۔ بجائے عزت کے ذلت اور بجائے وقار کے حقارت اور بجائے اولوالعزمی کے بزدلی و پست خیالی۔ اور بجائے حکومت کے ماتحتی نصیب ہوتی ہے۔ (اعاذنا اللّٰہ منھا) فاطر فطرت جل شانہ فرماتا ہے۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ۔
مسلمانو! جب کبھی (کافروں کی) کسی فوج سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو جائے تو ثابت قدم رہا کرو۔ اور
كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (45) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (انفال پ۱۰)
کثرت سے اللہ کو یاد کیا کرو تاکہ تم مراد کو پہنچو۔ اور اللہ کا اور اس کے رسول کا حکم مانا کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کیا کرو (آپس میں جھگڑو گے) تو تم ہمت ہار دو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور (تکالیف پر) صابر رہا کرو بیشک اللہ صابروں کا ساتھی ہے۔
(۳) اسی طرح اہل کتاب کی خستہ حالت کی نسبت فرمایا:
لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ (الحشر پ۲۸)
’’مسلمانو! یہ (اہل کتاب) سب مل کر تم سے نہیں لڑ سکتے مگر ہاں محفوظ بستیوں میں یا دیواروں کی آڑ میں (ہو کر کیونکہ) ان کی آپس میں سخت لڑائی ہے تو (اے دیکھنے والے یا اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کو اکٹھا خیال کرتا ہے حالانکہ ان