کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 354
سامنے بھلائی کا ایک نرم راستہ پیش کر دیا ہے پس تم اسے قبول کر لو۔‘‘
ایسی عقیدت و محبت والی قوم سے متصور نہیں ہو سکتا۔ کہ وہ اصل چیز کو جس کی وجہ سے ان میں اس ارادت و الفت کی روح پھونکی گئی۔ اور اس میں ان کی دنیوی بہبودی اور اخروی نجات بھی ہو ضائع جانے دیں ۔ یعنی ’’احکام شریعت‘‘ خواہ وہ احکام آپ کے ارشادات قولیہ سے حاصل ہوں خواہ اشارات فعلیہ سے۔
وہ آپ کے ہر فعل کو نہایت محبت سے دیکھتے اور آپ کے ہر قول کو نہایت عقیدت مندی سے سنتے تھے۔ ان کے نزدیک (بلکہ واقعہ میں بھی) آپ کی حرکات و سکنات‘ نشست و برخاست‘ سکوت و تکلم‘ ضحک و بکاء‘ خواب و بیداری کی حالتیں بامعنی اور حکمت پر مبنی ہونے کی وجہ سے سب سبق آموز اور قابل اقتداء تھیں ۔ لہٰذا وہ آپ کے اقوال و افعال کو خاص دلچسپی و انس سے سنتے اور دیکھتے۔ اور پھر در شاہوار کی طرح نہایت قدر سے محفوظ رکھتے تھے۔ اللّٰھم صل علی سیدنا و مولٰنا محمد و علی الہ و ازواجہ و اصحابہ و بارک و سلم۔