کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 353
ایسے جہاں دیدہ و تجربہ کار کو مقام ’’حدیبیہ‘‘ پر حیران کر دیا تھا۔ جب کہ وہ کفار قریش کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں سفیر ہو کر آیا تھا۔ اس نے آپ کے ان جانثاروں کی فدا کاری اور جاں نثاری دیکھی تو واپس جا کر قوم کو ان الفاظ میں خطاب کر کے اسلامیوں کی سیاسی قوت کا اندازہ جتلایا۔
فرجع عروۃ الی اصحابہ فقال ای قوم واللّٰہ لقد وفدت علی الملوک و وفدت علی قیصر و کسریٰ و نجاشی واللّٰہ ان رأیت ملکا قط یعظم اصحابہ مایعظم اصحاب محمد محمداً واللّٰہ ماتنخم نخامۃ الاوقعت فی کف رجل منہم فدلک بھا وجھہ و جلدہ واذا مرھم ابتدروا امرہ و اذا توضاء کادوایقتتلون علی وضوئہ واذا تکلم خفضوا اصواتھم عندہ ولا یحدون النظر الیہ تعظیما لہ و انہ قد عرض لکم خطۃ رشد فاقبلوھا(صحیح بخاری کتاب الشروط ج۲ مطبوعہ مصر ص ۷۹)
(یعنی) ’’پس وہ عروہ اپنے لوگوں کی طرف لوٹا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کی قسم میں (کئی ایک) بادشاہوں کے پاس گیا ہوں ۔ اور قیصر (روم) اور کسریٰ (ایران) اور نجاشی (شاہ حبشہ) کے پاس بھی گیا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے اصحاب اس کی اتنی عزت کرتے ہوں جتنی عزت محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اصحاب کرتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! جب اس نے ناک صاف کی تو وہ پانی کسی آدمی ہی کی ہتھیلی پر پڑا۔ جسے اس نے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکم کیا تو اس کی تعمیل میں انہوں نے جلدی کی۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو قریب تھا کہ وضو کا (گرا ہوا) پانی لینے کے لئے آپس میں لڑ پڑیں ۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سب نے آوازیں پست کر دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ کی تعظیم کے خیال سے تیز نظر کر کے دیکھتے نہیں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے