کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 30
دین واحد میں مختلف فرقے کس طرح بن جاتے ہیں صاحب شرع (پیغمبر) کی موجودگی میں سب امتی ایک ہی فرقہ ہوتے ہیں ۔ جو کچھ نبی اللہ نے فرمایا اپنے عمل سے بتلایا۔ سب نے اس کے سامنے گردن جھکا کر اسی کی پیروی اختیار کی۔ چنانچہ خدا تعالی نے زمانہ سابق کی حالت یوں بیان فرمائی۔ وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا (یونس پ۱۱) ’’یعنی تمام لوگ (پہلے) ایک ہی گروہ موحد تھے مختلف تو پیچھے ہوئے‘‘ جوں جوں عصر نبوت سے دوری ہوتی جاتی ہے۔ بعد کی نسلوں میں ذہول و نسیان غالب ہوتا جاتا ہے۔ غفلت و بے پرواہی کی وجہ سے دل سخت ہو کر نصیحت پانے کے قابل نہیں رہتے۔ جہالت پھیلتی جاتی ہے ’’کتاب الٰہی‘‘ اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم متروک ہو جاتی ہے۔ آثار نبوت محفوظ نہیں رہتے اور ان کی بجائے اقوال الرجال رائے و قیاس اور بے سند سنی سنائی باتوں کی پیروی کا رواج عام ہو جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ نفسانی خواہشوں اور آپس کی عداوتوں کے لئے بھی مذہب ہی کو آڑ بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تحریف لفظی و معنوی وضع مسائل‘ افتراء علی اللہ اور اختراع مسائل اور بدعات جیسے امور سرزد ہوتے ہیں ۔ اور دین الہی میں ایسا فتنہ عظیم برپا ہو جاتا ہے کہ حق و باطل کی تمیز بعض صورتوں میں تو مشکل اور بعض حالتوں میں عادتاً ناممکن ہو جاتی ہے۔ یہ امور عشرہ ایسے قابل قبول ہیں کہ کوئی زمانہ شناس جو حالات اقوام کو گہری نگاہ سے دیکھتا ہو اور ان کے اختلافات و انقلابات کو فکر صائب سے سوچتا ہو اور گذشتہ امتوں کی تواریخ پر نظر رکھتا ہو ان کی واقعیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ یہ سب امور قرآن شریف میں یہود و نصاریٰ کے مذکورات میں متفرق مقامات پر بالتصریح مذکور ہیں جو قرآن شریف کے باترجمہ پڑھنے والوں کو روز مرہ کی تلاوت میں