کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 28
کی طرف لگی ہوتی ہیں جس کی معرفت ان کو اللہ کے احکام پہنچتے ہیں اور صرف اسی کے اعتبار پر وہ اس کے اس قول کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے ورنہ ان کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ یہ خداوند عالم کا حکم ہے پس ضرور ہے کہ نبی اللہ کے قول و طریق عمل کو معتبر جان کر اس کی پیروی کی جائے تاکہ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ [1] (نساء پ۵) کی سند اور قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ۔[2]
[1] جو اس رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرتا ہے یا کرے گا۔ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا کیونکہ اس نے رسول اللہ کی اطاعت اللہ کے واطیعوا الرسول کی تعمیل میں کی ۔
[2] (اے میرے حبیب ان سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔ یعنی صدر اول میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کے وقت صرف آپ کے اعتبار و اقرار پر قرآن شریف کے کلام اللہ اور منجانب اللہ ہونے کا اعتبار و اقرار کیا گیا۔ چنانچہ سورہ یونس میں منکرین کے جواب میں فرمایا فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یعنی اے میرے حبیب ان سے کہہ دیں کہ میں اس (تلاوت قرآن اور دعویٰ نبوت) سے پیشتر ایک کافی عمر تم ہی میں رہ چکا ہوں تو کیا تم عقل نہیں کرتے اور سورہ مومنون میں فرمایا أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ یعنی آیا یہ لوگ اپنے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو (شخصیت و سیرت صدق و امانت اور خاندان کی رو سے) جانتے پہچانتے نہیں کہ اسے اوپر جان کر اس سے انکار کرتے ہیں ۔ ان آیتوں میں قابل التفات دو لفظ ہیں عقل اور معرفت عقل کا کام ہے معلومات سے مجہولات کا علم حاصل کرنا اور معرفت اس علم کو کہتے ہیں جو آثار و علامات میں تفکر کرنے سے حاصل ہو چنانچہ فرمایا تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ (پ۳) اور اس کی ضد انکار ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں معرفت کے مقابلے میں انکار کا ذکر کیا۔ پس ہر دو آیات کی توضیح یوں ہے کہ صدر اول کے لوگ جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب نسب اور آپ کی شخصیت و پاک سیرت سے پورے پورے واقف تھے پس جو کچھ ان کو معلوم تھا یعنی آپ کی سیرت و عملی زندگی اسی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس شے کی طرف رہنمائی کی جس کا ان کو علم نہیں تھا۔ اور وہ بوجہ جہالت کے انکار کرتے تھے یعنی آپ کی نبوت اور آپ پر کلام الٰہی کا نازل ہونا اور استدلال کا صحیح طریق یہی ہے اور آنحضرت کے حالات شخصیہ پر نظر کر کے ان میں تفکر کرنے کی بابت فرمایا قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ (پ۲۲) یعنی ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم کو صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کو حاضر ناظر جان کر اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر کھڑے ہو اور پھر غور و فکر