کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 27
۷۔ چند امور ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سوائے نبی برحق کی ذات بابرکات کے کسی دیگر کی ذات میں جمع نہیں کرتا وہ یہ ہیں (الف) نبی اللہ کی پیدائش و پرورش اور اس کا نشوونما اور اس کا انتخاب واصطفاء ایک خاص ارادہ الٰہی کے ماتحت ہوتا رہا ہے آیت وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي[1] (طہ پ۱۶) اس پر شاہد ہے جس کی علت غائی اللہ تعالیٰ کی شریعت کا اظہار اور نبی اللہ کا خلقت کی رہنمائی کے لئے مبعوث و مخصوص ہونا ہے اور یہ امر وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي [2] اذْهَبْ أَنْتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي[3] (طہ پ ۱۶) سے ثابت ہے۔ (ب) اسی لئے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کے علمی اور عملی قوی میں ایسا رسوخ و اعتدال پیدا کرتا رہا ہے کہ وہ اتباع ھوا سے معصوم رہتے ہیں اور فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی نہیں کرتے۔ اس وصف کی شان حکم وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي[4](طہ پ ۱۶) میں چمک رہی ہے۔ (ج) نبی اللہ کبھی تو اللہ تعالیٰ کا بے واسطہ مخاطب ہوتا ہے اور کبھی بواسطہ فرشتہ لیکن بندوں تک اللہ تعالیٰ کے احکام شرعی پہنچنے میں ایک وہی (پیغمبر) واسطہ ہوتا ہے اور بس۔ (د) امت کی طرح نبی اللہ خود بھی احکام الہیہ کا مکلف ہوتا ہے ’’الا ماخص منھا‘‘ ان سب امور چہارگانہ کو زیر نظر رکھنے سے ایک روشن ضمیر راست رو شخص ضرور ضرور اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ نبی اللہ کو شریعت الہیہ کی سمجھ صحیح طور پر ہونی چاہئے۔ تاکہ اس کے بیان و طریق عمل سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا منشا و مقصد پورا پورا اور صحیح صحیح معلوم ہو جائے اور وہ غلط فہمی میں نہ پڑیں ۔ کیونکہ لوگوں کی نظریں تو اسی مقدس ہستی
[1] تا کہ تو پرورش کیا جائے سامنے میری آنکھ کے [2] اور میں نے تجھے اپنی ذات کے لئے پسند کر لیا ہے۔ [3] تواور تیرا بھائی میری آیات (نشانات و احکام) لے کر جاؤ۔ [4] اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔