کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 26
اللہ سے ہٹاتا اور محض اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم سناتا رہا۔ چنانچہ فرمایا۔ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (نحل پ ۱۴) ’’ہم ضرور ضرور ہر امت میں رسول بھیجتے رہے ہیں کہ بس اللہ ہی کی عبادت کرو اور غیر اللہ سے اجتناب کرو ‘‘ نیز فرمایا۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ (نساء پ ۵) ’’ہم نے جو بھی رسول بھیجا وہ صرف اس مقصد کے لئے بھیجا کہ ہمارے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘ ۵۔ مذہب کے دو حصے ہیں اول اصول یعنی عقائد ان کا تعلق قلب (دل) سے ہے دوم فروع جن میں عبادات‘ معاملات‘ اخلاق و دیگر اعمال حسنہ شامل ہیں ۔ ان کا تعلق زبان ۔ اور دیگر اعضاء اور انسان کی متعلقہ اشیاء جیسے مال و دولت سے ہے۔ بس یہ دونوں حصے (اصول و فروع یا عقائد و اعمال) اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کے کسی رسول برحق کی معرفت مقرر ہوتے رہے ہیں ۔ اور اسی حیثیت سے کسی مذہب کو بالفاظ مختلفہ دین الٰہی دین حق‘ شریعت الٰہی اور سچا مذہب کہتے ہیں ۔ ۶۔ نیز چونکہ مذہب کا تعلق صرف اللہ ذو الجلال سے ہے اور مذہبی اعمال و عقائد کی جزا بھی اسی سے مطلوب ہے اور ہونی چاہئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے صرف اسی اعتقاد صحیح اور عمل صالح کی جزائے خیر ملے گی جو اس نے اپنے رسول برحق کی معرفت مقرر و تعلیم کیا ہو۔ اسی لئے فرمایا: أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (حم شوری پ ۲۵) ’’کیا ان لوگوں کے واسطے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کی وہ باتیں مقرر کر دی ہیں جن کی اجازت اللہ نے نہیں دی‘‘