کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 25
’’یعنی انسانی عقل کی رسائی کا انجام گھٹنے کی بندش ہے اور دنیا جہان یا علما کی اکثر دوڑ کا حاصل رستے کا گم ہو جانا ہے۔‘‘ ۳۔ اور چونکہ خدمت و اطاعت تب بارآور ہو سکتی ہے جب مخدوم و مطاع اسے پسند کر لے۔ اور اس پر اپنی رضا ظاہر کرے اور کسی کی رضا و ناراضی اس کے اپنے بتائے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا طریق ہم اپنی طرف سے مقرر نہیں کر سکتے۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس کی تعلیم بھی خاص اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو۔ ۴۔ پھر چونکہ ہر خاص و عام دربار شاہی سے بالا ستقلال بغیر واسطہ کے حکم نامہ اور شرف ہم کلامی حاصل کرنے کے لائق نہیں ہوتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے علم و حکمت سے نوع انسانی میں سے بعض افراد کو منتخب کر کے ان پر بذریعہ وحی اپنی رضا کے رستے کھولتا رہا ہے اور ان کے قلوب کو نور علم و یقین سے منور اور معرفت حق سے معمور کرتا رہا ہے اور ان کو ا پنی معصیت سے معصوم رکھنے کے لئے ان کے علمی و عملی قوی میں رسوخ و اعتدال پیدا کرتا رہا ہے اور تمام لوگوں کو جن کو ان کی دعوت پہنچے۔ ان کی پیروی و فرمانبرداری کا حکم کرتا رہا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم و ارادہ میں ان کے پیدا کرنے سے بڑا مقصد یہی ہوتا تھا کہ ان کو خلقت کی رہبری کے لئے مقرر کرے[1] اور یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے چنانچہ سید المرسلین خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (پ ۱۷۔ انبیاء) یعنی (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ کو دنیا جہاں والوں پر رحمت کرنے کے لئے رسول بنایا ہے اور بس۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے تقاضے سے ہر امت میں رسول پیدا کیا۔ جو ان کو غیر
[1] ایسے شخص کو نبی یا رسول و پیغمبر کہتے ہیں ۔ نبی اس لحاظ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت ممتاز اور رفیع القدر ہوتا ہے یا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سے علم و خبر پا کر خلقت کو بتاتا اور سکھاتا ہے اور رسول و پیغمبر اس نظر سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام و پیغام اس کے بندوں کو پہنچاتا ہے۔