کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 24
مقدمہ
۱۔ مذہب کا اصلی رکن اور اہم مقصد۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی عبادت ہے۔ اور چونکہ ذات باری تعالیٰ ہمارے ادراک اور فہم سے پرے اور وسعت و رسائی سے بالاتر ہے۔ اس لئے ہم اس کی نسبت محض اپنے قیاس سے کوئی صحیح و قابل اطمینان اعتقاد جو اس کی شان کے لائق اور اس کی صفات کمال کے مناسب ہو۔ قائم نہیں کر سکتے‘ ولنعم ماقیل؎
اے برادر بے نہایت در گہیست
ہرچہ بروئے میر سی بروئے مالیست
۲۔ نیز چونکہ ہر شخص کا قیاس اختلاف طبائع اور ماحول کے تاثرات اور ماخذ علم کے سبب دوسرے سے مختلف ہو گا اور نظام قائم نہیں رہے گا اور پھر وجوہات ترجیح بھی مختلف ہوں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ بیچوں کی ذات اور اس کی صفات کی نسبت جو بھی اعتقاد رکھیں وہ خود اسی کا تعلیم کردہ ہو۔ چنانچہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی باوجود اعرف واعلم باللہ ہونے کے اس مقام پر آکر صاف صاف کہہ دیا۔ لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک (حصن) یعنی (اللہ تعالیٰ) میں تیری ثنا (کماحقہ) نہیں کر سکتا تو ایسا ہے جیسا تونے اپنی بابت خود فرمایا:
اس قصور علم کا اقرار بڑے سے بڑے عارف بڑے سے بڑے فلسفی کو بھی کرنا پڑا ہے۔ چنانچہ حضرت علی سے منقول ہے:
العجز عن الادراک (ملامبین)
’’یعنی اللہ تعالیٰ کے ادراک سے عاجز آجانا یہی ادراک ہے۔‘‘
اسی طرح امام رازی رحمہ اللہ کا قول ہے:
نھایۃ اقدام العقول عقال و اکثر سعی العٰلمین ضلال