کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 22
اسی طرح اپنے مذہب اہل حدیث کے بیان کرنے میں بھی کسی طرح کی کمی بیشی یا تغیر و تبدل یا اخفا یا تقسیہ نہیں کیا اور نہ لوگوں کے لحاظ یا رعب کے سبب اصل حقیقت کو چھپایا یا دبایا ہے۔ نہ تو ملمع سازی سے اپنے مذہب کو دوسروں پر غالب کر کے دکھایا ہے اور نہ تعصب سے دوسروں کو نظروں سے گرایا ہے۔ بلکہ جو کچھ لکھا ہے دلیل و برہان سے علی وجہ البصیرت لکھا ہے۔ واللّٰہ اسئل ان یعصمنی من الذلل ویحفظنی من الخطل۔
آخری گذارش یہ ہے کہ میں نے اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے۔ وہ اپنے علم میں حتی الامکان درست اور صحیح لکھا ہے نہ حوالہ میں غلطی ہے اور نہ استدلال میں مغالطہ ‘ تاریخی امور کو معتبر کتب سے چنا ہے اور اصولی مسائل کو مسلمہ کتب اصول سے نقل کیا ہے۔
حوالہ جات کے متعلق ایک خاص بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ بعض اوقات کوئی مصنف کسی کتاب کا حوالہ دیتا ہے وہ حوالہ بلحاظ صحت نقل و اعتبار کتاب تو بالکل درست ہوتا ہے۔ لیکن مستدل کے مفید مطلب نہیں ہوتا۔ اور یہ امر کبھی تو مصنف کی خامی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کہ وہ مفید اور غیر مفید میں تمیز نہیں کر سکتا اور کبھی قواعد استدلال کو نہ جان کر دعوی اور دلیل کی مطابقت نہیں سمجھتا۔ اور کبھی اصل مسئلے کی بے ثبوتی کے سبب ہوتا ہے کہ محض دلیل کا نام رکھنے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ یا طوالت کلام سے اپنے ناظرین کو خوش کرنا چاہتا ہے اور وقت ٹالتا ہے۔
لیکن خاکسار اپنے ناظرین کو نہایت وثوق سے باور کراتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان سے یہ عیب اس کتاب میں نہیں پائیں گے۔ بلکہ جو حوالہ دیا ہے وہ بذات خود درست اور معتبر ہونے کے علاوہ عین مطلب کا ہے اور ٹھیک موقع پر چسپاں ہوتا ہے۔ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي ۔
(۶) باقی رہی میری اپنی بے بضاعتی اور کم فہمی سو اس کا اعتراف کرتے ہوئے گذارش