کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 21
(۲) میں خود بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اور میرے عزیز و معزز ناظرین! آپ بھی کریں کہ وہ مجھے میرے علم و عمل میں اور قول و فعل میں لغزش سے بچائے۔ اور میرے دل پر حق بات نازل کرے۔ اور میرے قلم سے حق ہی لکھوائے اور ہمارے لئے اپنی رضا کی سچی راہیں کھول دے۔ اور اپنی ہدایت کو خوشی اور رغبت خاطر سے قبول کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔ اللھم انی اعوذ بک من شر نفسی وسوء عملی وشر قلمی ومن سوء فھمی وقلۃ علمی وزلۃ قدمی۔ اللھم سدد لسانی وثبت حجتی وقنی شر حسدی انک انت نصیری وعضدی بک احول وبک اصول ‘
(۳) یہ امر بھی خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ بعض مصنفین فریق مخالف کا مذہب ذکر کرنے میں بوجوہات کمی بیشی کر جاتے ہیں ۔ کمی کی یہ صورت ہے کہ اصل مسئلہ یا اس کے دلائل کے بیان میں کچھ کمی کر دی۔ یا ان کی کسی ضعیف دلیل کو بیان کر کے اس کا رد کر دیا۔ اور بیشی کی صورت یہ ہے کہ اصل مسئلہ میں اپنی طرف سے کوئی ایسی بات ملا دی جو فریق مخالف کا مذہب نہیں ہے۔ یا مسئلہ کے طرز بیان کو بدل دیا۔ جس سے مفہوم کلام میں خرابی پیدا ہو گئی اور اس فریق کا مذہب ضعیف یا باطل کر کے دکھا دیا۔
اسی طرح بعض اوقات اپنا مذہب بیان کرنے میں اپنا ضعف معلوم کر کے اس کے بیان میں کمی بیشی تغیر و تبدل کرتے ہیں جس سے ناظرین کو مذہب کی اصلی صورت پر نظر کرنے کا موقع نہیں ملتا۔
لیکن اللہ کے فضل سے آپ یہ معائب اس کتاب ’’تاریخ اہلحدیث‘‘ میں نہیں پائیں گے۔ جو کچھ کسی دوسرے مذہب کی نسبت لکھا گیا۔ اس میں کسی طرح کی کمی بیشی نہیں کی گئی۔ نہ تو اصل مسئلہ کی صورت میں اور نہ اس کے دلائل کے بیان میں اور نہ وجہ استدلال میں ۔ اور نہ طریق ادا اور طرز بیان میں ۔ بلکہ ٹھیک اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ جس طرح اصل قائل نے کہا ہے۔ یا اس مذہب کی معتبر کتب اور اس کے مستند محقق علماء نے تحقیق کیا ہے۔