کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 20
بات کہا کریں جو بہت اچھی ہو۔ کیونکہ شیطان ان میں جدائی (عداوت) ڈلوائے گا۔‘‘
اسی طرح سامعین کی نسبت فرمایا:۔
فَبَشِّرْ عِبَادِ () الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ (الزمر پ۲۳)
’’(اے میرے پیارے نبی) آپ میرے ان بندوں کو (جنت) کی بشارت سناویں جو کلام کو (غور سے) سن لیتے ہیں پھر اس کی اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی لوگ عقل والے ہیں ۔‘‘
سو یہ خاکسار حتی الوسع اس تحریر میں نہ تو ایسے الفاظ استعمال کرے گا۔ جن سے کسی خاص فرقے پر حملہ مقصود ہو۔ اور نہ ایسا طرز بیان اختیار کرے گا جس سے کسی فریق کی ہتک مطلوب ہو بلکہ دلائل کو واضح اور مسائل کو صاف و شستہ الفاظ میں بیان کرنے کے علاوہ اس امر کی بھی کوشش کرے گا کہ جس طرح کوئی حاذق طبیب اس خیال سے کہ بیمار کی طبیعت دوا کی تلخی سے کراہت نہ کرے۔ ضیافت طبع کے لئے شیرینی کو جزو نسخہ بنا دیتا ہے۔ اور کالی کڑوی گولی کو ورق نقرہ میں لپیٹ کر یا اس پر قند کا غلاف چڑھا کر بیمار کو کھلاتا ہے۔ اسی طرح یہ عاجز اللہ تعالیٰ عزوجل کی حسن توفیق و تائید سے ایسی شیریں کلامی اور پسندیدہ طرز اور سنجیدہ انداز سے بیان کرے گا تاکہ ناظرین اسے آسانی سے سمجھ جانے کے ساتھ خوشی سے گوارا اور قبول بھی کر لیں تاکہ اس پر عمل پیرا ہو کر دنیا اور عاقبت کی سعادت حاصل کر سکیں ۔ وما توفیقی الا باللّٰہ۔
(۱) اپنی اس نیت و کوشش کے بعد اپنے ناظرین سے میری یہ توقع بیجانہ ہو گی کہ وہ میرے بیان کو جس میں قرآن مجید کی روایات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبول و صحیح احادیث ہوں گی‘ یا ان دونوں (قرآن و حدیث) سے صحیح استنباط ہو گا‘ محض اختلاف مذہبی کی وجہ سے درجہ قبولیت سے گرا نہیں دیں گے بلکہ دلیل کی قوت اور بیان کی صداقت پر نظر کر کے عدل و انصاف کی رعایت اور حق کی حمایت کریں گے۔ لان الحق احق ان یتبع۔