کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 19
دیگر فرقوں کا ذکر بھی آجائے اور مخالفت مذہبی ایک ایسا امر ہے کہ اس میں عصبیت و حمیت کی رگ جوش میں آجاتی ہے۔ کبھی تو مقرر و مصنف کی طبیعت اعتدال پر نہیں رہتی اور اس سے ایسے سخت سست الفاظ نکل جاتے ہیں ۔ یا طرز بیان ایسا دل آزار ہو جاتا ہے کہ سنجیدہ مزاج لوگ اسے ہر گز پسند نہیں کرتے۔ بلکہ بسا اوقات تلخ گوئی اور سخت کلامی کے سبب اصلاح پذیر طبائع بھی بدک جاتی ہیں اور بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہوتا ہے اور کبھی پڑھنے سننے والے محض اس خیال سے کہ مصنف یا مقرران کے اپنے مذہب کا نہیں ہے۔ نفس مضمون کی قبولیت سے ہر چند کہ وہ حق اور راست ہو انحراف کر لیتے ہیں بلکہ ایسے مسائل کی تسلیم سے بھی انکار کر دیتے ہیں جو ان کے اپنے مسلمات کے رو سے بھی قابل قبول ہوں ۔ بلکہ ان کے اپنے ائمہ و علمائے مذہب اور کتب مسلمہ کی تصریحات و شہادات سے بھی ثابت ہوں لیکن مشہور و معمول عوام کے موافق نہ ہوں ۔ آہ! بہت سے حقائق ہیں جن کو زمانے کی اسی روش نے پامال کر دیا اور بہت سے سچے موتی ہیں جن کو تعصب کی آندھی نے زیر غبار کر دیا۔ فالی اللّٰہ المشتکی۔ غرض بجائے اس کے کہ سننے سنانے اور لکھنے پڑھنے سے کسی کو فائدہ پہنچتا اور آپس میں تبادلہ خیالات سے اختلاف کی جگہ اتفاق اور مخالفت کی بجائے موافقت پیدا ہو جاتی اور نفرت رغبت سے بدل جاتی۔ الٹا طبیعتوں میں بغض و عناد اور فتنہ و فساد اور ایک دوسرے سے بدظنی و نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور اختلاف رائے خلاف طبائع کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ اسی سبب سے قرآن شریف میں جو اخلاق فاضلہ اور عادات حسنہ کی اعلی تعلیم اور نہایت معتدل روش پر چلانے والی اکیلی کتاب ہے اور نفسانی جذبات اور فطری قوی کی رعایت بدرجہ غایت رکھتی ہے خاص طور پر حکم ہے‘ وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ (بنی اسرائیل) ’’(اے میرے پیارے نبی) آپ میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہ ایسی