کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 160
ہیں احمد بن حنبل اور سفیان بن عینیہ اور اوزاعی رحمہ اللہ ‘‘[1]
(۲) اسی طرح توالی التاسیس میں کئی جگہ امام شافعی رحمہ اللہ کی زبانی اور بعض جگہ تذکرہ مصنف یعنی (حافظ ابن حجر) کے الفاظ میں الفاظ اصحاب الحدیث اور اہل الحدیث مذکور ہیں ۔ ان مواقع میں سے ایک موقع بہت لطیف ہے کہ مصنف علام نے اہل الحدیث کو روش و طریق و اجتہاد و حفظ نصوص میں اہل الرائے (کوفیوں ) کے مقابلے میں ذکر کیا ہے چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کے جامع الفقہ و الحدیث ہونے کی بابت فرماتے ہیں فاجتمع لہ علم اھل الرای وعلم اھل الحدیث حافظ ابن حجر ۷۷۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۸۵۴ھ میں فوت ہوئے۔
(۳) کتاب جامع الترمذی تو اہل حدیث اور اصحاب الحدیث کے ذکر سے بھری پڑی ہے۔ چنانچہ ہم چند مواقع بطور نمونہ درج کرتے ہیں ۔
جلد اول مطبوعہ مجتبائی دہلی ص ۴ سطر ۳‘ نیز ص ۶ سطر ۲۳‘ نیز ص ۹ اور سطر۲۳‘ نیز ص ۱۰ سطر ۳۔
اسی طرح امام ترمذی ’’کتاب العلل‘‘ میں بھی کئی جگہ ذکر کرتے ہیں ۔ جن میں سے ایک یہ ہے ص اول سطر۲۵ امام ابو عیسیٰ ترمذی ۲۰۹ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۷۹ھ میں فوت ہوئے۔
(۴) کتب فقہ حنفی میں بھی اہل حدیث کو ایک ’’فرقہ‘‘ کر کے لکھا ہے۔ چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عایدین شامی ردالمختاز شرح الدر المختار جلد سوم ص۳۹۳ و ص۳۹۴ میں فرماتے ہیں ۔
حکی ان رجلا من اصحاب ابی حنیفۃ خطب الی رجل من اصحاب الحدیث ابنتہ فی عہد ابی بکر الجوز جانی فابی الا ان
[1] امام احمد رحمہ اللہ بغداد کے رہنے والے ہیں امام ابو سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ کوفہ کے اور امام اوزاعی شام کے جغرافیہ اور نقشہ ایشیا پر نظر رکھنے والے اصحاب جان سکتے ہیں کہ بغداد‘ کوفہ اور شام میں کس قدر بعد مسافت ہے۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے وقت میں جماعت اہل حدیث کہاں سے کہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اللہم زد فزذ۔