کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 137
۲۲۰ھ؁ تک ہے۔[1] اس بیان سے واضح ہو گیا کہ قرون خیار کی میعاد ۱۸۰ھ؁ یا زیادہ سے زیادہ ۲۲۰ھ؁ تک ہے۔ اور ہر چار مذہب کی تقلید اس معیاد تک ثابت نہیں ہوئی۔ کیونکہ چوتھے امام یعنی امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ۲۴۱ھ؁ میں ہوئی اور یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ امام احمد رحمہ اللہ کی تقلید ان کی زندگی میں واجب جانی تھی حالانکہ وہ خود فرمایا کرتے تھے۔ لا تقلد فی ولا ملکا (عقد الجید للمحدث الدہلوی) پس جس طریق پر قرون ثلثہ مشہود لہا بالخیر گذرے وہی طریق سنت ہے۔ اور وہ کیا تھا۔ بغیر ایچ پیچ اور کھینچ تان کے اور بغیر کسی خاص معین شخص کی تقلید کے قرآن و حدیث پر اور جو بطریق توارث و تعامل جماعت صحابہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہوا اس پر عمل کرنا چاہا چنانچہ حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ ’’ (اے پڑھنے والے) تو جان لے کہ (امت مرحومہ کے) لوگ چوتھی صدی ہجری سے پیشتر بعینہ کسی خاص مذہب کی تقلید پر جمع نہیں تھے (حجتہ اللہ مصری جلد اول ص۱۵۲) اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب منہاج السنہ میں فرماتے ہیں ۔ ’’اور اہل السنہ و الجماعت میں سے ایک اور قدیم اور معروف مذہب ہے۔ جو اس وقت سے بھی پیشتر کا ہے۔ جب کہ خداوند تعالی نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کو پیدا کیا تھا۔ اور وہ صحابہ کا مذہب ہے۔ جنہوں نے وہ مذہب اپنے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے سیکھا تھا۔ اور جو شخص اس کے
[1] مستفاد از فتح الباری وغیرہ کتب شروح حدیث و کتب طبقات العلماء۔ نوٹ خاص تابعین تک تو حدیث کے الفاظ یقینی ہیں اور اتباع تابعین کے لئے راوی کو شک ہے لیکن ہم نے مدت کو لمبا کر کے ان کے زمانہ کو بھی شمار کر لیا ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اتباع تابعین تک بھی تقلید شخصی کا رواج نہیں پڑا تھا۔ جیسا کہ آئندہ انشاء اللہ آپ بالاستقلال بھی ملاحظہ فرما لیں گے۔