کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 134
ذلک التخمین فمن اظلم منا وما عذرنا یوم یقوم الناس لرب العالمین۔[1]
’’اگر ہم کو رسول معصوم علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیث جن کی اطاعت ہم پر خدا نے فرض کی ہے صحیح سند سے پہنچ جائے اور وہ حدیث اس امام کے مذہب کے خلاف ہو (جس کی تقلید ہم نے اختیار کی ہے) اور ہم اس حدیث کو تو ترک کر دیں اور اس (امام کی) ظنی بات (قیاس) کی پیروی کر لیں ۔ تو ہم سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا؟ اور اس دن جس دن تمام لوگ رب العالمین کے سامنے (جواب دہی کے لئے) کھڑے ہوں گے ہمارا کیا عذر ہو گا؟ ‘‘
معقولی اور تاریخی طریق پر:۔ اس امر کو ہم معقولی اور تاریخی طور پر بھی ثابت کر سکتے ہیں ۔ جس کا بیان اس طرح ہے کہ کوئی نسبت اپنے منسوب الیہ سے پیشتر متحقق نہیں ہو سکتی۔
مثلاً حنفی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اور مالکی کہ امام مالک رحمہ اللہ کی طرف اور شافعی کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف اور حنبلی کہ امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل کی طرف منسوب ہیں ۔ پس یہ چاروں نسبتیں ان چاروں اماموں سے پیشتر متحقق نہیں ہو سکتیں ۔ ان بزرگ اماموں کی تواریخ ولادت و وفات پر نظر کرنے سے معلوم ہو جائے گا کہ کتنی صدیوں کے مسلمان ان نسبتوں سے منسوب نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ۱۵۰ھ میں اور امام مالک رحمہ اللہ ۱۷۹ھ میں اور امام شافعی رحمہ اللہ ۲۰۴ھ میں اور امام احمد بن حنبل ۲۴۰ھ میں فوت ہوئے۔
ظاہر ہے کہ تیسری صدی کے وسط تک یہ سوال نہیں اٹھ سکتا تھا کہ اہل سنت انہی چار مذاہب میں منحصر ہیں ۔ اور جو کوئی ان چاروں میں سے کسی ایک کا حلقہ بگوش اور مقلد ہو کر نہ رہے گا۔ وہ اہل سنت سے نہیں ہے۔ اول اس وجہ سے کہ اہل سنت کا لقب دوسرے فرقوں کے مقابلہ میں اعتقادی اختلاف کے سبب سے پڑا تھا اور وہ ان ہر چہار
[1] حجتہ اللہ مصری جلد اول ص۱۵۵