کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 132
چنانچہ حضرت حجتہ الہند فرماتے ہیں :
فوقع شیوع تدوین الحدیث والاثر فی بلدان الاسلام و کتابۃ الصحف والنسخ حتی قل من یکون اھل الروایۃ الا کان لہ تدوین او صحیفۃ او نسخۃ۔[1]
’’پس بلاد اسلامیہ میں احادیث و آثار کی تدوین اور کتابوں اور صحیفوں کے لکھنے کی اشاعت ہوتی گئی۔ حتی کہ اہل روایت میں سے کوئی کم ایسا ہوا ہو گا جس نے کوئی تصنیف یا صحیفہ یا رسالہ نہ لکھا ہو۔‘‘
اس کے بعد شاہ صاحب نے بہت بسط سے بیان کیا ہے کہ اس زمانہ میں جس جس نے بلاد حجاز و شام و عراق و مصر و یمن و خراسان میں سفر کیا۔ اس نے وہاں کے بزرگوں کو پایا۔ اور کتب کو جمع کیا۔ اور نسخوں کی ڈھونڈ بھال اور غریب حدیث اور نادر اثر کی خوب گہری پڑتال کی۔ اور ان کی ہمت سے احادیث و روایتیں اس قدر جمع ہو گئیں کہ ان سے پہلے کسی کے پاس جمع نہ ہوئی تھیں ۔
اس کے بعد بعض اجلہ محدثین کے اسماء گرامی لکھ کر فرماتے ہیں ۔
فرجع المحققون منھم بعد احکام فن الروایۃ و معرفۃ مراتب الاحادیث الی الفقہ فلم یکن عند ھم من الرای ان یجمع علی تقلید رجل ممن مضی مع ما یریدون من الاحادیث والا ثار المناقضۃ فی کل مذھب من تلک المذاھب(ص ۱۴۸)
’’محدثین میں سے بعض محقیقینفن روایت کو پختہ کرنے اور مراتب احادیث کی معرفت کر لینے کے بعد (علم) فقہ کی طرف متوجہ ہوئے تو ان (مشہور) مذاہب میں سے ہر مذہب میں احادیث و آثار مناقضہ کے ہوتے ہوئے ان کے نزدیک یہ بات جائز نہ ہوئی کہ گذشتہ لوگوں میں سے کسی ایک کی تقلید پر جم جائیں ۔‘‘
[1] حجتہ اللہ مصری جلد اول ص۱۴۷