کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 128
اپنے مرویات جمع کر دئیے۔ نیز ابوبکر ابن حزم حاکم مدینہ کو لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے جو کچھ ہو اسے دیکھ بھال کر جمع کر لو۔ مشتغلین بالحدیث کی طبعیتیں اس طرف لگ پڑیں اور مختلف علاقوں میں مختلف لوگوں نے کچھ کچھ احادیث کتابی صورت میں لکھیں ۔[1]حتی کہ امام زہری کے لائق شاگرد اور علمائے مدینہ کے وارث و جانشین مشرق و مغرب کے استاد امام مالک رحمہ اللہ مدینہ طیبہ میں خاص مسجد نبوی میں مسند تدریس پر بیٹھے اور تشنگان حدیث کی پیاس بجھانے لگے جس سے ان کی کتاب مؤطا[2] تیار ہوئی اس زمانے کی دیگر تصانیف سب ناپید ہیں صرف ایک مؤطا امام مالک رحمہ اللہ باقی ہے۔ اور آج اسلامی کتب میں قرآن شریف کے بعد سب سے پرانی کتاب یہی ہے (سبحان اللہ اللہ جس کو چاہئے بڑھائے) مؤطا میں امام مالک رحمہ اللہ نے اہل حجاز کی صحیح صحیح احادیث مرفوعہ لکھیں ۔ اور ان کے ساتھ صحابہ و تابعین وغیرہ کے اقوال و فتاویٰ بھی درج کئے۔ جو اہل مدینہ کے نزدیک معروف تھے اور ان پر ان کا عمل تھا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر مقدمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں ۔ فصنف الامام مالک مؤطا و توخی فیہ القوی من حدیث اھل الحجاز و مزجہ باقوال الصحابۃ وفتاوی التابعین ومن بعدھم[3] پس امام مالک نے مؤطا تصنیف کیا۔ اور اس میں اہل حجاز (مکہ و مدینہ) کی قوی احادیث جمع کرنے کی کوشش کی۔ اور اس میں اقوال صحابہ اور تابعین اور
[1] اس کا مختصر ذکر فصل زمانہ اتباع تابعین اور مفصل ذکر حصہ دوم فصل اول تدوین علم حدیث میں دیکھئے۔ [2] مؤطا کے معنی ہیں ممہد و مہذب۔ امام مالک نے اسے بنا سنوار کر اور اس کی احادیث کی خوب جانچ پڑتال کر کے اسے لوگوں کے سامنے رکھ دیا۔ تو اسے مؤطا کہا گیا اور یا یہ کہ مؤطا کے معنی طریق جاری کے ہیں یعنی چونکہ اس میں وہ احادیث و آثار مذکور ہیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اور اکابر تابعین کا عمل درآمد تھا۔ اس لئے اس کا نام مؤطا ہوا۔ [3] مقدمہ مطبوعہ دہلی۔