کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 123
ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کبھی کسی طرح ادا کیا اور کبھی کسی طرح مثلاً صلوۃ تہجد اور صلوۃ خوف کہ اس کی عملی کیفیتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد طرح منقول ہیں ۔ اور وہ سب جائز ہیں ۔ (۳) صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین اکثر لوگ کاروباری تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہر وقت نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اس لئے ہر ایک نے آپ سے وہی کچھ دیکھا جو اس کے سامنے ہوا۔ پس اگر مختلف صحابہ نے مختلف اوقات میں کسی عمل کی مختلف صورتوں کو دیکھا یا غیر ضروری مسائل میں کسی نے فعل کے وقت دیکھا اور دوسرے نے ترک کے وقت تو ہر ایک نے وہی کچھ روایت کیا جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا تھا۔ یا حاضر الوقت صحابی نے دیکھ سن لیا اور غیر حاضر نے دیکھا نہ سنا لہذا جب صحابہ کی جماعت مختلف بلاد دنیا میں پھیل گئی۔ تو جو صحابی جس علاقہ میں جابسا۔ اس نے وہاں اپنے معلومات ذکر کئے پس اس وجہ سے ہر علاقے کی معلومات مختلف ہو گئیں ۔ اور اس زمانے میں روایات کا کوئی تعلیمی نصاب تو تھا نہیں ۔ جس میں جمیع مرویات ایک جگہ جمع ہوتیں ۔ اور ان میں تطبیق دی جاتی جیسی کہ محدثین رحمہم اللہ کے جمع کر دینے کے بعد صورت بن گئی۔ اس لئے اگر ’’انتشار علم حدیث‘‘ سے پیشتر ایک جگہ کے لوگوں کو دوسری جگہ بعض روایات نہ پہنچی ہوں تو کچھ تعجب نہیں ۔ بلکہ واقعتا نہیں پہنچیں ۔ چنانچہ استاذ الہند حضرت شاہ صاحب حجتہ اللہ میں فرماتے ہیں ۔ ثم انھم تفرقوا فی البلاد وصار کل واحد مقتدی ناحیۃ من النواحی فکثرت الوقائع ودارت المسائل فا ستفتوا فیھا فاجاب کل واحد حسب ما حفظہ اواستنبط وان لم یجد فیما حفظہ اواستنبط ما یصلح للجواب اجتہد برایہ و عرف العلۃ التی ادار رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیہا الحکم فی منصوصاتہ فطرد الحکم حیث ما وجدھا لا یالوا جھدا فی موافقۃ غرضہ