کتاب: تاریخ اہل حدیث - صفحہ 122
اصول (عقائد) میں اختلاف نہیں ہوا۔ جیسا کہ سابق فصل میں ظاہر ہو چکا ہے۔ چنانچہ امام مالک کے حالات میں مذکور ہے۔ کہ جب خلیفہ ہارون الرشید نے آپ کی کتاب مؤطا کو کعبتہ اللہ میں لٹکانے اور اسے سلطنت اسلام میں دستور العمل اور شاہی قانون بنانے کی نسبت امام مالک رحمہ اللہ سے دریافت کیا تو امام صاحب ممدوح نے جواب دیا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ فروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں بھی اختلاف تھا۔ اور وہ مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہوئے اور ہر ایک امر سنت ہے جس کا اجرا ہو گیا۔ یعنی ہر ایک نے اس علاقہ میں اپنا دیکھا یا سنا بیان کیا۔ اور لوگوں نے ان سے علم حاصل کیا اور طریق عمل سیکھا۔ تو اب لوگوں کو ان کے علاقہ کی مرویات صحیحہ سے روکنا نہیں چاہئے۔ ازالۂ وھم:۔ شاید آپ کو خیال گذرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے جو کچھ دیکھا سنا۔ اس میں اختلاف کس طرح ہو سکتا ہے۔ اور کیوں ؟ تو اس وہم کے دور کرنے کے لئے امور ذیل پر نظر رکھیں ۔ (۱) شریعت کا ایک حصہ ضروری مسائل کا ہے جنہیں فرائض کہتے ہیں کہ ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اور ان میں تساہل و ترک کی گنجائش نہیں ۔ ان میں تو بالکل اختلاف نہیں ۔ دوسرا حصہ عوام الناس کی وسعت و سہولت کی نظر سے ضروری نہیں رکھا گیا۔ تاکہ اعلیٰ درجے والے جو ترقی کے خواہشمند ہوں وہ ان پر عمل کر کے اپنے کمال پر پہنچ سکیں ۔ اور جو اس درجے کے نہیں بلکہ عوام ہیں وہ ان مسائل میں قاصر رہنے کی وجہ سے گنہگار نہ ٹھہریں ۔ ان مسائل کو سنن و مستحبات کہتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تو اعلی فطرت اور کامل استعداد والوں کی ترقی کے لئے اس حصہ مسائل میں سے کسی مسئلہ کو عمل میں لائے اور کبھی آپ نے جمہور الناس کی سہولت کے خیال سے اسے ترک کیا۔ مثلاً سفر میں روزہ رکھنا اور نہ رکھنا۔ (۲) کسی فرض امر یا سنت کے بجا لانے میں عملی کیفیت بھی ایک نہج پر نہیں ہوتی۔ بلکہ اس میں بھی کئی طریقے جائز ہونے کے علاوہ ضروری و غیر ضروری کا فرق ہوتا