کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 50
کیا تھا، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((إِنَّ النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَقَّ عَنْ نَّفْسِہٖ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِیًّا))[1] 8 عقیقے کا جانور ذبح کرتے ہوئے یہ دعا پڑھنا وارد ہے: ((بِسْمِ اللّٰہِ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُمَّ لَکَ، وَإِلَیْکَ، ہٰذِہٖ عَقِیْقَۃُ فُلَانٍ))[2] ’’بسم اللہ(اللہ کے نام سے)یا اللہ! یہ تیرا ہے اور تیری ہی جانب ہے، یہ فلاں بچے(یہاں نام لے)کا عقیقہ ہے۔‘‘ اچھے نام رکھنا: ولادت کے ساتویں دن بچے یا بچی کا اچھا نام رکھا جائے، کیونکہ اچھے نام میں بھی بچے کی تربیت کا ایک روشن اشارہ موجود ہوتا ہے۔اچھا نام اچھی شخصیت کا آئینہ دار اور بُرا نام بُری شخصیت کا پر تو ہوتا ہے۔اچھے نام سے بچے میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔نام اور مسمیٰ میں ایک خاص مناسبت ہوتی ہے، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے اسم و مسمی میں وہی مخصوص نسبت رکھی ہے، جو اسباب اور مسببات کے مابین قائم ہے۔بالفاظِ دیگر جو تعلق کسی چیز کے قالب اور اس کے حقائق یا روح اور جسم کے درمیان ہوتا ہے، وہی
[1] المحلّیٰ(۶/ ۲۳۹) المشکل للطحاوي(۳/ ۷۸، ۷۹) فتح الباري(۹/ ۵۱۵) تحفۃ المودود بأحکام المولود لابن القیّم و سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني، رقم الحدیث(۲۷۲۶(. [2] مصنّف عبد الرزاق(۴/ ۳۰۰) مسند أبي یعلیٰ(۴/ ۳۰۱) مستدرک الحاکم(۴/ ۲۳۷) سنن البیہقي(۹/ ۳۰۴) و صححہ الحاکم، ووافقہ الذہبیي، وصححہ ابن السّکن، کما في تحقیق و تعلیق ’’التلخیص الحبیر‘‘ لابن حجر(۴/ ۱۴۷) وحسنہ النووي في المجموع(۸/ ۴۲۸) والعراقي في طرح التثریب(۵/ ۲۱۲(.