کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 43
اس اذان کی اصل حکمت تو اللہ ہی جانتا ہے، تاہم بعض اہلِ علم نے لکھا ہے کہ نومولود کے کان میں اذان کہی جائے، تاکہ دنیا میں آنے کے بعد بچے کے کان میں سب سے پہلے رب العالمین کا نام اور کلمہ شہادت((أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَد رَّسُوْلُ اللّٰہ))کی صدا گونجے، اس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی دعوت اور عقیدہ توحید کا اہتمام ہے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ شیطان اذان کے کلمات سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔[1]
آج تک معروف و مروج تو یہ ہے کہ دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جاتی ہے، لیکن وہ حدیث جس میں اقامت کا ذکر ہے، اسے نہ صرف ضعیف بلکہ من گھڑت قرار دیا گیا ہے۔[2]
لہٰذا صرف اذان ہی پر کفایت کرنا چاہیے۔اس عمل کے بارے میں صرف حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا ایک اثر صحیح سند سے ثابت ہے، جو مصنف عبد الرزاق(۴/ ۳۳۶)میں آیا ہے۔[3]
تحنیک:
تحنیک(گُھٹی)کا مطلب کھجور کو اچھی طرح چبا کر بچے کے منہ میں ڈالنا اور ہونٹوں پر رگڑنا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی نیک اور بزرگ شخصیت کے پاس بچے کو لے جایا جائے، اس کے ذریعے تحنیک اور برکت کی دعا کرائی
[1] تحفۃ المولود لابن القیم(ص: ۲۱، ۲۲(.
[2] دیکھیں: مسند أبي یعلیٰ(۶/ ۳۲) عمل الیوم و اللیلۃ ابن السني(ص: ۶۱۷) شعب الإیمان للبیہقي(۶، ۳۹۰) إرواء الغلیل(۶/ ۶۵۱(.
[3] نیز دیکھیں: ’’بذل المجھود فیما ورد من الأذان و الإقامۃ في أذن المولود‘‘ للشیخ باسم طاہر عنایۃ، الخبر۔سعودي عرب.