کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 222
کا حکم دیا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾[آل عمران:۱۱۰] ’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی بھلائی کے لیے برپا کی گئی ہو، تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پرایمان رکھتے ہو۔‘‘ جس معاشرے میں نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنا برابر جاری ہو، اس معاشرے میں بُرے افراد اور سماج دشمن عناصر نہیں پنپ سکیں گے۔نتیجے میں معاشرہ صالح ہوگا، بچوں کے لیے نیک ساتھی اور بھلائیوں پر تعاون کرنے والے دوست و احباب میسر آئیں گے، جن کی صحبت سے امید کی جاسکتی ہے کہ بچے نیک اور صالح ہوں گے۔لیکن افسوس آج امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ برائیوں سے بھر گیا ہے۔بُرے اور سماج دشمن عناصر غالب اور نیک لوگ مغلوب ہوگئے ہیں۔ایسے میں والدین کا اوّلین فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو بُرے ماحول ومعاشرے کے اثرات سے ممکن حد تک بچانے کی کوشش کریں۔ والدین کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ اپنے گھر اور بچوں کے سکول و کالج اور اپنے معاشرے کا جائزہ لیں، اگر یہ تینوں جگہیں ٹھیک ہیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔اگر ان جگہوں میں سے گھر کا ماحول خراب ہے تو اپنے بچوں پر رحم کرتے ہوئے اسے دینی بنائیں، سکول و کالج کے ماحول کو ممکن ہوسکے تو سدھاریں، ورنہ کسی دوسرے مدرسے یا کالج میں بچے کا داخلہ کرائیں۔اگر معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں تو پھر اس برے معاشرے سے کسی نیک ماحول کی طرف