کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 217
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے قانون اور انصاف کے معاملے میں سخت طبع حکمران بھی گھر میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہوجاتے۔خود فرماتے ہیں: ((یَنْبَغِيْ لِلرَّجُلِ أَنْ یَّکُوْنَ فِيْ أَہْلِہٖ کَالصَّبِیِّ، فَإِذَا کَانَ فِيْ الْقَوْمِ کَانَ رَجُلًا))[1] ’’آدمی کو اپنے گھر میں محبت اور نرمی میں بچے کی طرح ہونا چاہیے، جب لوگوں میں ہو تو مرد بن کر رہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں وہ تمام کام کرتے جو تم میں سے ایک عام آدمی کرتا ہے۔کوئی چیز ایک جگہ سے اٹھاتے اور دوسری جگہ پر رکھتے۔گھر کے امور میں اپنی بیویوں کی مدد فرماتے، کپڑے سی لیتے، جوتا گانٹھ لیتے، گوشت کاٹ کر دیتے، گھر میں جھاڑو دیتے اور خادم کے کاموں میں اس کا ہاتھ بٹاتے۔‘‘[2] یہ وہ مبنی بر انصاف حقوق و فرائض ہیں، جو اسلام نے میاں بیوی دونوں پر عائد کیے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جس معاشرے میں ان حقوق پر کما حقہٗ عمل ہو تو اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ وہ معاشرہ انسانیت کا سب سے زیادہ سعادت مند، خوشگوار، محبت بھرا اور ہنستا کھیلتا معاشرہ ہوگا۔اس معاشرے میں دشمنی،
[1] تربیۃ الأولاد في الإسلام(ص: ۹۳). [2] سنن الترمذي، صحیح الجامع، رقم الحدیث(۴۹۷۴) مشکاۃ المصابیح(۵۸۲۲).