کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 216
’’ابن مسعود! میں آپ کو قریش کا عقل مند آدمی سمجھ رہا تھا۔آج پتا چلا کہ تم ایسے نہیں ہو۔دیکھو! اللہ تعالیٰ نے بیوی ہونے کے ناتے عورت پر جو فریضہ عائد کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب شوہر اسے اپنے بستر کی طرف بلائے تو وہ چلی آئے، لیکن اس سے بڑھ کر وہ ہمارے گھر کی حفاظت کرتی ہے، بچوں کی پرورش کرتی ہے، ہمارے جانوروں کی خدمت کرتی ہے، ہمارے گھر کی صفائی کرتی ہے، ہمارے لیے کھانا پکاتی ہے وغیرہ، جب بیوی کے اتنے سارے احسانات ہم پر ہیں، اگر وہ کبھی ہم پر گرجتی برستی ہے تو برسنے دو، اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے؟‘‘
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بزرگی اور عظمت کے باوجود بیویوں کے ساتھ نہایت ہی خوشگوار طور پر زندگی بسر فرماتے۔ہنسی مذاق اور کھیل کود میں بیویوں کو شریک فرماتے۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہr فرماتی ہیں:
’’ایک مرتبہ میں سفر مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے والوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔جب قافلہ آگے بڑھ گیا تو فرمایا:’’چلو ہم اور تم دوڑ لگاتے ہیں۔‘‘ میں ہلکی پُھلکی تھی، دوڑ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے چھوڑ دیا، پھر چند سالوں بعد جب میرا وزن کچھ بڑھ گیا تو دورانِ سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کارواں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، پھر مجھ سے فرمایا:’’چلو دوڑ لگاتے ہیں۔‘‘ اب کی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آگے بڑھ گئے اور فرمایا:
((ہَذِہٖ بِتِلْکَ))[1] ’’میں نے پچھلا حساب چکا دیا ہے۔‘‘
[1] سنن أبي داود، سنن النسائي، سنن ابن ماجہ، صحیح الجامع، رقم الحدیث(۷۰۰۷).