کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 215
ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں۔‘‘ ایک حدیث میں شوہر کو تاکید کی گئی ہے کہ بیوی سے جو کچھ میسر آئے لے لے، کیونکہ اس میں ٹیڑھا پن ہونا لازمی ہے اور آدمی اسی طبیعت پر اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جس پر وہ پیدا کی گئی ہے۔فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآئِ خَیْراً، فَإِنَّھُنَّّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْئٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاہُ، فَإِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہٗ کَسَرْتَہٗ، وَإِنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآئِ خَیْراً))[1] ’’عورتوں سے بہتر سلوک کرو، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ وہ ہے جو اس کا بلند حصہ ہے۔اگر تم اسے بالکل سیدھا کرنا چاہوگے تو اسے توڑ(طلاق دے)دوگے اور اگر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی ہی رہے گی، لہٰذا عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ عورتوں میں شوہر کو کچھ نہ کچھ کہتے رہنے کی فطری عادت ہوتی رہتی ہے، اس سے تنگ آکر ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کی شکایت لے کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے۔جاکر دیکھا تو ان کے گھر کا معاملہ بھی اپنے گھر سے کچھ الگ نہیں تھا۔امیر المومنین کی بیوی بھی انھیں کچھ کڑوی کسیلی سنا رہی تھیں۔الٹے قدم واپس آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں طلب کیا اور آکر واپس چلے جانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا: ’’جس اُفتاد کی شکایت لے کر آپ کی خدمت میں پہنچا تھا، اسی مصیبت سے آپ بھی دو چار تھے تو واپس چلا گیا۔‘‘ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
[1] صحیح البخاري و صحیح مسلم، صحیح الجامع، رقم الحدیث(۹۶۰).