کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 192
’’حضرت جبریل علیہ السلام مجھے برابر پڑوسی کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ کہیں وہ پڑوسی کو میرا وارث نہ بنا دیں۔‘‘ 2 ((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآْخِرِ فَلْیُحْسِنْ اِلَیٰ جَارِہٖ))[1] ’’جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘‘ 3 ((وَاللّٰہ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہ لَا یُؤْمِنُ، وَاللّٰہ لَا یُؤْمِنُ، قَالُوْا:مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ:مَنْ لَا یَأْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ))[2] ’’اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں۔صحابہ کرامy نے پوچھا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ کون ہے؟ فرمایا:’’جس کے ظلم سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔‘‘ 4 ((مَا آمَنَ بِيْ مَنْ بَاتَ شَبْعَانَ وَجَارُہٗ جَائِعٌ إِلَیٰ جَنْبِہٖ، وَہُوَ یَعْلَمُ))[3] ’’وہ مومن نہیں جو خود تو سیراب ہوکر رات گزارتا ہے اور اس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا ہے اور اسے اس کا علم بھی ہے کہ میرا پڑوسی بھوکاہے۔‘‘ لیکن افسوس کہ آج معاشرے میں پڑوسی کے حقوق کے متعلق سخت بے پروائی برتی جارہی ہے۔ایسے میں والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو
[1] متفق علیہ، سنن النسائي، سنن ابن ماجہ، مسند أحمد، صحیح الجامع(۶۵۰۱). [2] صحیح البخاري(۴/ ۱۱۸) مسند أحمد(۴/ ۳۱) صحیح الجامع، رقم الحدیث(۷۱۰۲). [3] صحیح الترغیب، رقم الحدیث(۲۵۶۱، ۲۵۶۳).