کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 30
سےپوچھا کیا تم نے دین کے بارے میں اس سے بہتر سوال کرنے والی کبھی سنی ہے؟صحابہ نے کہا واللہ !ہم نے کبھی نہیں سنا۔تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماءبنت یزید رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم میری مدد کرو اور تمام عورتوں سے جا کر بتا دو (کیونکہ انہوں نے عام عورتوں کی طرف سے یہ سوال کیا تھا ) کہ جب تم عورتیں خانہ داری کرتی ہو،اپنے بچوں کو پالتی ہو تو تمھارے گھرمیں بیٹھے بیٹھے تمھیں اتنا اجر ملتا ہے جتنا مردوں کو میدان جنگ میں جا کر تلوار چلا کر اپنی جان کو مشکلوں میں ڈال کراجر ملتا ہے۔ [1]
یہ اسی حدیث کی تشریح ہے کہ جب عورت حالت حمل ،زچگی اور رضاعت کی حالتوں میں ہوتی ہے تو اس کو مجاہد جتنا ثواب ملتا ہے۔
ہم عورتوں کو کبھی یہ خیال آیا جیسا کہ اسماءبنت یزید رضی اللہ عنہا کو آیا؟
اگر ہم مردوں کی خواہش پوری کرتی ہیں ، ان کے بچے جنتی ہیں ان کے گھروں کے کام کرتی ہیں ۔جبکہ مرد اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ، صدقہ کرتے ہیں ،دوسرے نیکی کے کام کرتے ہیں ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عورتوں کا خانہ داری کرنا، ان کے بچے پالنا اس کے ساتھ ہی دوسرے گھر کے کام کرنے کا اتنا ثواب مل جاتا ہے جتنا مردوں کو جہاد کا ثواب ملتا ہے۔ مرد اگر جہاد میں مر جائے تو شہید ہوتا ہے اسی طرح اگر عورت ان مراحل میں فوت ہو جائے تو اسے بھی شہادت کا ثواب ملتا ہے
جب بچہ پیدا ہونے کی خوشخبری ملے:
جس کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہو اس کو خوشخبری دینی چاہیے۔قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں بچے کی خوشخبری کا ذکر ہے۔جب فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس عذاب کی خبر لے کر گئے تو اس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کے پاس ٹھہرے اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کی خوشخبری دی تھی۔ اس کا ذکر قرآن مجید میں تین ،چار جگہوں پر آتا ہے۔ اور ہر جگہ پر یہ الفاظ آتے ہیں :
[1] شعب الایمان : 8369.