کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 28
دوران حمل ہونے والی گفتگو ، زیر مطالعہ رہنے والے رسائل ، پسندیدہ و ناپسندیدہ آوازیں ، جو کیسٹ وہ سنے سب بچے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔کیونکہ یہ سب چیزیں ماں پر اثر انداز ہوتی ہیں تو اس کی وساطت سے اس کے پیٹ میں پلنے والے بچے پر بھی اثر اندازہو رہی ہوتی ہیں ۔ اگر اس دورا ن ماں نماز پڑھتی ہے،تلاوت قرآن کرتی ہے، وعظ اور تقریر سنتی ہے ،قرآن کی محفلوں میں شرکت یا تفسیر القرآن پڑھے تو یہ سب بچے پر اثر انداز ہوتا ہے۔لیکن اگر ماں فحش لٹریچر پڑھ رہی ہے یا حسد بغض اور انتقام والے جذبات کا شکار ہے تو اس کا اثر بھی بچے پر پڑ رہا ہے ۔اگر اس عرصہ میں عورت پرسکون اور خوش ہے تو یہ چیز بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ جھگڑے والی ٹینشن والی فضا ہے تو بچے کی طرف ماں سے منتقل ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر ز بھی کہتے ہیں کہ حاملہ عورت کے کمرے میں مسکراتے بچے کی تصویر لگائیں تو بچہ خوبصورت ہو گا۔ یہ حقیقت ہے۔ اسلام پہلے دن سے ہی یہ اہتمام کرتا ہے کہ مرد و عورت کو شیطان سے بچاؤ نصیب ہو۔ اس دوران عورت بری سوچوں سے، برے افعال سے، برائی کے مناظر سے،برائی کے حالات سے اپنے آپ کو جتنا محفوظ کر سکتی ہے کرے۔ یہ سب وہ اپنے بچے کی روحانی تربیت کے لیے کر رہی ہے۔ جسمانی بہتری کے لیے ہم بڑی تگ ودو کرتے ہیں ۔ گھروں میں ساسیں اور مائیں بھی کر رہی ہوتی ہیں ۔ڈاکٹرز بھی کر رہے ہوتے ہیں ۔لیکن روحانی پہلو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ جسمانی صحت کے ساتھ ماں کی روحانی صحت بھی بچے پر اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ اب اس عرصے میں ماں کواپناٹائم ٹیبل بنا لینا چاہیئے کہ میں نے اللہ کے زیادہ قریب ہونا ہے۔ عبادات، ذکر اذکار ، تلاوت یا وعظ وغیرہ جو بھی میسر ہوں ان کا اہتمام کرنا ہے
میرا ذاتی تجربہ ہے:(میں پہلے اپنی نیت خالص کرلوں کہ میرے دل میں ریا کا خیال نہ آئے ۔شہرت کے لیے نہیں صرف ہدایت کے لیے ،نصیحت کے طور پر) میں نے جب پہلا حج کیا تو اس وقت میرے پیٹ میں دو بچے تھے اور حج کے دوران ظاہر ہے نیکی کا غلبہ ہوتا