کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 24
شریک حیات کا انتخاب
شادی کے لیے نیک شریک حیات کا انتخاب کرنا چاہیے۔حدیث میں آتا ہے کہ
’’عورت سے چار باتوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔اس کے حسب نسب کی وجہ سے ،اس کے جمال کی وجہ سے ،اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔‘‘[1]
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوجائیں ! تو دین والی لے اور کامیاب ہو جا۔
اگر نیک اولاد مطلوب ہو تو نیک بیوی کا انتخاب کرنا پڑے گا۔اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ گلیوں میں گشت کر رہے تھے تو ایک گھر سے انہیں باتیں کرنے کی آواز آئی ایک بچی اور اس کی ماں باتیں کر رہی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ تھک چکے تھے اور ایک مکان کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔عورت اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ اٹھو اور دودھ میں تھوڑا پانی ڈال دو۔ لڑکی نے کہا کہ امیرالمومنین نے دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہے۔ماں نے کہا یہاں کونسے امیرالمومنین ہیں اٹھو ! اور پانی ملاؤ۔لڑکی نے کہا امیر المومنین تو نہیں دیکھ رہےمگر امیر المومنین کا خدا تو دیکھ رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ گفتگو سن رہے تھے۔صبح ہوتے ہی بیوی سے کہاکہ فلاں گھر جاؤ اور دیکھو کہ ان کی بیٹی شادی شدہ ہے یا کنواری۔ معلوم ہوا کہ وہ بیوہ ہے۔ آ پ رضی اللہ عنہ نے بلاتامل اپنے بیٹے حضرت عاصم سے اس کی شادی کر دی اس لڑکی کی اولاد سے پانچویں خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز پیدا ہوئے۔ان کو پانچواں خلیفہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے اڑھائی سالہ دور حکومت میں اتنی اصلاحات کیں کہ خلافت راشدہ کا منظر دوبارہ نظر آنے لگا، حالانکہ ان سے پہلے بہت خرابیاں پیدا ہو چکی تھیں ۔ اس
[1] اللولو والمرجان : 928