کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 23
یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، حدیث پر اعتراضات کی اصل وجہ لوگوں کی جہالت اور کم علمی ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے احا دیث کی حفاظت بھی کی ہے اور بڑی مربوط طریقے سے کی ہے۔ تو انسان سب سے پہلے اپنی نیک تربیت کرے، پہلے خود قرآن و حدیث کا علم حاصل کرے اور اس کے بعد فرائض دینیہ پر کاربند ہو۔ فرائض دینیہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ۔کاروبار کے بارےمیں ، تعلیم کے بارے میں ،نکاح کے بارے میں ، معاشرتی طور طریقوں کے بارے میں ،ان کی پابندی کرے، ان پر عمل کرے،حقوق اللہ پورے کرے، معاملات کو درست کرے، اور اس بارے میں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں ان کی پیروی کرے۔ مختصراً! انسان سب سے پہلے اپنی تربیت کرے کیونکہ اس کے بعد ہی وہ کسی اورکی تربیت کر سکتا ہے اور خصوصاً اولاد کی۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے مرد کو گھر کا قوام بنایا ہےاس لیے مرد کی تربیت بڑی اہم ہے۔ہم لوگ خواتین کی تربیت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ حالانکہ عورت کی تربیت تو یہی ہےکہ خاوند جہاں چلانا چاہے گا وہ چلے گی۔ لہٰذا صل تربیت مرد کی ہے۔ لہٰذا مرد اپنے آ پ کو نیک بنائے اپنے عقائد و اعمال کی درستگی کا خیال رکھے ،اپنے آپ کو کبیرہ گناہوں سے بچائےاور جس حد تک وہ تقوٰی اختیار کر سکتا ہے تقوٰی اختیار کرے کیونکہ معزز ترین آدمی تو وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ ﴾ (الحجرات : 13)
’’بے شک اللہ کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘
نکاح کاحکم
نکاح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور نصف ایمان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان نکاح کرلیتا ہے تونصف ایمان مکمل ہو جاتا ہے۔اب اس کو چاہیے کہ باقی کے نصف میں اللہ سے ڈرتا رہے۔[1] باقی رہا نکاح نہ کرنا توشریعت نےاسے پسند نہیں کیا۔
[1] شعب الایمان : 5100.