کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 22
تربیت اولاد کاآغازشادی سےقبل اولاد کی تربیت کاآغازشادی سےقبل ہو جاتا ہے۔انسان کو اگر نیک اولاد چاہیئےتو سب سےپہلے اسےاپنی تربیت کرنی ہے۔خود نیک ہو گا تو اولاد نیک ہو گی۔خود کو نیک مسلمان بنائے اور اللہ سے رہنمائی لےجس نے اس کو پیدا کیا۔ آج ہم سب تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر یہ تعلیم ہمیں اللہ کے قریب لے جانے کی بجائے اس سے دور لے جا رہی ہے۔ جتنا بڑا اور جتنی زیادہ فیس والا سکول ہوتا ہے، اتنی ہی دین بیزار لوگوں کی نسل پیدا کرتا ہے۔ تجربہ ہمیں یہی بتاتا ہے۔ لہٰذانیک بننے کے لیےہمیں اس تعلیم کو حاصل کرنا ہے جو ہمیں اللہ سے قریب کرے، پہلی وحی یہی تھی ﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَۚ۰۰۱﴾ (العلق : 1) ’’پڑھیے اپنے رب کے نام کےساتھ جس نے پیدا کیا۔‘‘ ((طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم.)) [1] ’’علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ یہ علم کون سا ہو سکتا ہے؟یہ وحی الٰہی ہے اور وحی الٰہی کی آج محفوظ ترین شکل قرآن پاک ہے۔اور پھر اس کی تشریح ہے، اور قرآن پاک کی تشریح کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے : ﴿اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ۰۰۱۷ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗۚ۰۰۱۸ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ﴾ (القیامۃ : 17 تا 19) ’’بے شک اس کا جمع کرنا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ پھر جب ہم اس کی قراءت کر چکیں تو اس کی قراءت کا اتباع کیجیے۔ پھر بے شک اس کا کھول کر بیان کرنا بھی ہمارے ذمے ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا بلکہ حدیث کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا۔
[1] ابن ماجۃ : 224.