کتاب: تربیت اولاد - صفحہ 20
نہ مارا ،مگر معاشرے کے دباؤاور لوگوں کے طعنوں کی وجہ سے ہر وقت سوچتا رہتا کہ اس کو قتل کردوں ۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنا دو ،بچی نے میری انگلی پکڑی اور میرے ساتھ جا رہی تھی ۔وہاں جا کر میں ایک گڑھا کھودا اور اس میں بچی کو دبا دیا ، بچی مجھے آوازیں دے رہی تھی میں اس کی آوازیں سن رہا تھا اور مٹی ڈالتا جارہاتھا۔ اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ سن رہے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو گر رہے تھے اور متواتر گر رہے تھے۔ دوسرے صحابہ نے اس کو ڈانٹا اور کہا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رلا دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روکا کہ اس کو اپنی بات کرنے دو۔اس دور میں اولاد کے ساتھ رویے کا ہمیں یہ انداز بھی ملتا ہے۔[1] آج بھی اولاد کا قتل عام جاری ہے اولاد کو قتل کرنے کا رواج اور بھی بہت سی قوموں میں تھا اور ہے۔ہندو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے۔ اوربیویوں کو شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ جلا دیتے جس کو ستی کہتے ہیں ۔ اس کا رواج آج بھی ہے ۔ چین جیسے ترقی یافتہ ملک میں آج بھی لاکھوں بچے بچیاں ہلاک ہوتے ہیں ۔یہ ظلم آج کے دور میں بھی اسی طرح جاری ہے۔ چونکہ چین میں صرف ایک بچے کی اجازت تھی، پھر نوجوانوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہونے کی وجہ سے دو بچوں کی اجازت دی گئی ہے۔ فیملی پلاننگ کی وجہ سےآج اگر چین کی کوئی خاتون حاملہ ہوتی ہے تو الٹراساونڈ کرواتی ہے لڑکی ہو تو ضائع کرواتی ہے اور اگر لڑکا ہو تو رہنے دیتی ہے۔ اور اگر ایک سے زیادہ لڑکا ہو تو اسے بھی ضائع کروانا ہوتا ہے ،کیونکہ ایک بچے سے زیادہ کی وہاں اجازت نہیں ۔اور یہ سب چین جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہو رہا ہے۔ ہندوستان میں چلے جائیں تو وہاں بڑے بڑے بورڈ لگے ہوتے ہیں کہ آپ کا آج کا تھوڑا سا خرچ کل
[1] سنن الدارمی : 2.