کتاب: تقویٰ کا نور اور گناہوں کی تاریکیاں - صفحہ 50
والے باغات کی شکل میں ان کی جزا بیان فرمائی کہ(یہ نعمتیں ایسی ہوں گی)جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا‘ نہ کسی کان نے ان کے متعلق سنا اور نہ ہی کسی فرد بشر کے دل میں کھٹکا(اس کا حقیقی تصور آیا)۔[1] پنجم: اللہ عز وجل کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ﴿١٥﴾آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ﴿١٦﴾كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ﴿١٧﴾وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴿١٨﴾وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾[2] بیشک تقویٰ والے لوگ بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ان کے رب نے انہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے اسے لے رہے ہوں گے وہ تو اس سے پہلے ہی نیکو کار تھے۔وہ رات کو بہت کم سویا کرتے
[1] دیکھئے: تفسیر القرآن العظیم،لابن کثیر ۱/۳۸۴،تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان،للسعدی،ص۱۱۶۔ [2] سورۃالذاریات: ۱۵تا ۱۹۔