کتاب: تقویٰ کا نور اور گناہوں کی تاریکیاں - صفحہ 33
آپ نے فرمایا: ’’ أوصيكُم بتَقوى اللّٰہِ،والسَّمعِ والطّاعةِ۔۔۔‘‘[1] میں تمہیں اللہ کے تقویٰ اور سمع و طاعت کی وصیت کرتا ہوں۔۔۔۔ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یہ دونوں باتیں دنیا و آخرت کی سعادت کو شامل ہیں۔‘‘[2] ۴- حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا کوئی امیر بناتے تو اسے خصوصی طور پر اللہ کے تقویٰ کی اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے انہیں بھلائی کی وصیت فرماتے۔۔۔۔‘‘[3] ۵- تقویٰ کی اہمیت ہی کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں
[1] سنن ابوداود،۴/۲۰۱،حدیث نمبر:(۴۶۰۷)وسنن ترمذی،۵/۴۴،حدیث نمبر:(۲۶۷۶)و مسند احمد،۴/۴۶وابن ماجہ ۱/۱۵،حدیث نمبر:(۴۳،۴۴)۔ [2] جامع العلوم والحکم،از ابن رجب،۲/۴۱۶۔ [3] صحیح مسلم،کتاب الجھاد والسیر،باب تامیر الامام الامراء علی البعوث ووصیتہ ایاھم بآداب الغزو وغیرھا،۳/۱۳۵۶،حدیث نمبر:(۱۷۳۱)۔