کتاب: تقویٰ کا نور اور گناہوں کی تاریکیاں - صفحہ 179
طاقت اور پامردی کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔[1] مقصود یہ ہے کہ گنہ گار شخص جس قدر گناہوں میں لت پت ہوتا ہے وہ گناہ اس کے نفس‘اہل وعیال اور عام لوگوں کے تئیں اس کے دل سے غیرت ختم کردیتے ہیں،اور اس کے د ل میں غیرت کو بہت ہی کمزور کردیتے ہیں ‘ یہاں تک کہ وہ بری چیزوں کو برا نہیں سمجھتا نہ اپنی ذات کے تعلق سے اور نہ ہی اپنے علاوہ کسی اور کے تعلق سے،اور جب انسان اس حد تک پہنچ جائے تو(یوں سمجھو کہ)وہ ہلاکت کے دروازہ میں داخل ہوگیا ہے،اسی لئے دیوث([2])مخلوق کا سب سے بدترین شخص قرار پایا ہے اور اس پر جنت حرام ہے،کیونکہ اس کے پاس غیرت نام کی چیز ہی نہیں ہوتی،(اور)اسی لئے وہ اہل و عیال میں برائی پر راضی ہوجاتا ہے۔یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غیرت دین کی بنیاد ہے،جس کے پاس غیرت
[1] دیکھئے: شرح سیوطی بر سنن نسائی،۵/۷۹۔ [2] ’’دیوث‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جسے اپنے اہل خانہ کے سلسلہ میں کوئی غیرت نہ ہو،بلکہ وہ اپنے گھر میں(جنسی)برائی دیکھ کر بھی خاموشی برتے۔(مترجم)