کتاب: تقویٰ کا نور اور گناہوں کی تاریکیاں - صفحہ 103
کہی ہے،[1] اور کہا گیا ہے کہ﴿هَـٰذَا﴾سے(درج ذیل)پچھلی آیت کی طرف اشارہ ہے:
﴿قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ﴾[2]
تم سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات گزر چکے ہیں ‘ سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ(آسمانی تعلیم کے)جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ دونوں معانی حق اور درست ہیں۔‘‘[3]
میں عرش عظیم کے رب اللہ عظیم و برتر سے اس بات کا سوال کرتاہوں کہ وہ مجھے اور تمام مومنوں کو ان تمام ثمرات سے سرفراز مند متقی بندوں میں شامل فرمائے‘ کہ وہ ہر چیز پر قادر اور قبولیت کا مستحق ہے۔
[1] دیکھئے: تفسیر القرآن العظیم،۱/۳۸۶۔
[2] سورۃ آل عمران: ۱۳۷،امام ابن جریر نے یہی قول اختیار کیا ہے،دیکھئے: جامع البیان عن تاویل آی القرآن،۷/ ۲۳۲۔
[3] تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان،للسعدی،ص۱۱۷۔