کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 98
ب: امام مسلم نے ابو الزبیر سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے [کسی کو] جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے [ورود] کے بارے میں سوال کرتے ہوئے سنا، تو انہوں نے فرمایا: ’’ ہم روز قیامت وہاں وہاں سے آئیں گے۔ دیکھو یعنی لوگوں سے اوپر۔ ‘‘[1] انہوں نے بیان کیا: ’’ امتوں کو ایک ایک کرکے ان کے بتوں اور جس کی وہ عبادت کرتے تھے، کے ساتھ بلایا جائے گا۔ پھر اس کے بعد ہمارے رب تعالیٰ تشریف لائیں گے اور فرمائیں گے: ’’ تم کس کو دیکھ رہے ہو؟ ‘‘ وہ جواب میں عرض کریں گے: ’’ ہم اپنے رب تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں۔ ‘‘ وہ فرمائیں گے: ’’ میں تمہارا رب ہوں۔ ‘‘ وہ جواب میں عرض کریں گے: ’’ یہاں تک کہ ہم آپ کو دیکھ لیں۔ ‘‘ بس اللہ تعالیٰ ہنستے ہوئے تجلی فرمائیں گے۔ انہوں نے بیان کیا: [2] پس وہ انہیں لے چلیں گے اور وہ ان کے پیچھے جائیں گے۔ ان میں سے ہر انسان کو منافق ہو یا مؤمن نور دیا جائے گا، پھر وہ ان کے پیچھے جائیں گے۔ اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے۔ جس کو اللہ تعالیٰ چاہیں گے، وہ انہیں پکڑلیں گے۔ پھر منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور اہل ایمان نجات پاجائیں گے۔ پہلا گروہ نجات پائے گا اور ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی مانند ہوں گے، وہ ستر ہزار ہوں گے، ان کا حساب بھی نہ لیا جائے گا۔ پھر ان کے بعد لوگ آسمان کے روشن ترین ستارے جیسے ہوں گے، پھر اسی طرح …… [3] اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کو جہنم کے پل پر گزرتے وقت ،اس میں گرنے سے محفوظ فرماکر سلامتی سے پار فرمادیں گے۔
[1] عبارت میں کچھ جھول ہے۔ صحیح عبارت [کا ترجمہ] یوں ہے: ہم روزِ قیامت ایک ٹیلے پر یعنی لوگوں سے بلندی پر ہوں گے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش صحیح مسلم للشیخ محمد فؤاد عبدالباقي ۱؍۱۷۷)۔ [2] المسند میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ’’ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ پس وہ انہیں لے چلیں گے اور وہ ان کے پیچھے جائیں گے، اور … الحدیث (ملاحظہ ہو: المسند، رقم الحدیث ۱۵۱۱۴، ۲۳؍۳۲۸)۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [اسناد کو صحیح مسلم کی شرط پر صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۱۳؍۳۲۸)۔ [3] صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب أدنی أھل الجنۃ منزلۃ فیہا، جزء من رقم الحدیث ۳۱۶ (۱۹۱)، ۱؍۱۷۷۔۱۷۸۔