کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 97
متقیوں کے لیے ہے] [1] اے اللہ! ہم ناکاروں کو اپنا تقویٰ عطا فرمائیے اور دنیا و آخرت میں ہمارا بہترین انجام کار فرمانا۔ إنک سمیع مجیب یاحي یاقیوم۔ (۱۶) جہنم سے نجات تقویٰ کی عظیم ترین برکات میں سے ایک یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کو جہنم کی آگ سے نجات عطا فرمائیں گے۔ اس کے دلائل میں سے دو درج ذیل ہیں: ا: ارشادِ باری تعالیٰ: {وَإِنْ مِّنْکُمْ إِلاَّ وَارِدُھَا کَانَ عَلَی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ۔[2] ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظَّالِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا ۔ [3]}[4] [اور تم میں سے ہر شخص اس پر سے ضرور گزرے گا۔ یہ آپ کے رب کا حتمی فیصلہ ہے۔ پھر ہم تقویٰ اختیار کرنے والوں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو گھٹنوں کے بل اس میں گرا کر چھوڑدیں گے۔] حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: ’’ ارشاد باری تعالیٰ: {ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِیْنَ اتَّقَوا} [پھر ہم متقی لوگوں کو نجات دیں گے] یعنی جب تمام مخلوق جہنم کی آگ کے اوپر سے گزرے گی اور کافر گناہ گار اپنے گناہوں کے بقدر اس میں گرجائیں گے، تو اللہ تعالیٰ متقیوں کو ان کے اعمال کے مطابق نجات دیں گے۔ ان کا پل صراط کو عبور کرنا اور اس میں سرعت ان کے دنیا کے اعمال کے حساب سے ہوگی۔ ‘‘[5]
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر السعدي ص ۵۵۴۔ [2] (حَتْمًا مَّقْضِیًّا): یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات حتمی ہے اور وہ مخلوق پر اس بات کا فیصلہ فرماچکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۵؍۲۵۷) [3] (جِثِیًّا): یہ [جاث] کی جمع ہے اور اس کے معنی کے متعلق مفسرین کے پانچ اقوال ہیں: ۱: بیٹھے ہوئے، ۲: گروہ در گروہ، ۳: گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے، ۴: کھڑے، ۵: اپنے گھٹنوں پر کھڑے۔ (ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۵؍ ۲۵۳)۔ [4] سورۃ مریم؍ الآیتان ۷۱و۷۲۔ [5] تفسیر ابن کثیر ۳؍ ۱۴۸۔