کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 89
کے حصول میں لگا رہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں ثواب عطا فرماتے ہیں، اور اسی ثواب میں سے یہ بھی ہے، کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر سختی اور مشقت سے نکلنے کے لیے نجات اور چھٹکارے کی صورت پیدا فرمادیتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتا، وہ اس کو مشکلات اور بندھنوں میں جکڑ دیتے ہیں۔ وہ نہ تو ان سے چھٹکارا حاصل کرپاتا ہے اور نہ ان کے اثرات سے بچ سکتا ہے۔ [1] {وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ} کی تفسیر : اس ارشادِ ربانی کے معنی کو علمائے امت نے خوب اچھی طرح واضح کیا ہے۔ ذیل میں ان میں سے دو کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ۱: امام ابن عینیہ نے بیان کیا ہے، کہ وہ رزق میں برکت ہے۔ [2] ۲: شیخ سعدی نے تحریر کیا ہے، کہ اللہ تعالیٰ متقی کے لیے اس جگہ سے رزق مہیا فرماتے ہیں، جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ [3] آیت شریفہ کا عظیم مقام: ۱: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشادِ ربانی کے عظیم الشان مقام و مرتبہ کو بیان فرمایا ہے۔ امام حاکم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو پڑھنا شروع کیا: {وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ} انہوں نے مزید کہا: ’’ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ میں اونگھنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یَا أَبَا ذَرٍ! لَوْ أَنَّ النَّاسَ أَخَذُوْا بِھَا لَکَفَتْھُمْ۔‘‘ [4]
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر السعدي ص ۹۵۳؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر البغوي ۴؍ ۳۵۷ ؛ وتفسیر الخازن ۷؍۱۰۸۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۱۸؍۱۶۰۔ [3] ملاحظہ ہو: تفسیر السعدي ص ۹۵۳ ؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر الکشاف ۴؍۱۲۰؛ وزاد المسیر ۸؍۲۹۱۔۲۹۲ ؛ وتفسیر ابن کثیر ۴؍۴۰۰ ؛ وتفسیر أبي السعود ۸؍۲۶۱۔ [4] المستدرک علی الصحیحین، کتاب التفسیر، ۲؍۴۹۲۔ امام حاکم نے اس کی [اسناد کو صحیح] قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍۴۹۲ ؛ والتلخیص ۲؍۴۹۲)۔