کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 74
[اس بات پر دلالت کناں حدیث کا ذکر، کہ بلاشبہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست ان کے فاجر اقارب کی بجائے متقی لوگ ہیں]
(۴)
محبوبِ الٰہی بننا
تقویٰ کے انتہائی بیش قیمت ثمرات میں سے ایک یہ ہے، کہ اس کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔ یہ حقیقت قرآن و سنت کی متعدد نصوص میں بیان کی گئی ہے، جن میں سے تین درج ذیل ہیں:
۱: ارشادِ ربانی:
{بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی فَإِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ} [1]
( کیوں نہیں، جو شخص اپنے عہد کو پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے، تو یقینا اللہ تعالیٰ متقی لوگوں سے محبت کرتے ہیں) ۔
ب: {إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ} [2]
[بلاشبہ اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت کرتے ہیں] ۔
ج: امام مسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَقِيَّ الغَنِيَّ الْخَفِيَّ ۔‘‘ [3]
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے بندے سے محبت کرتے ہیں، جو تقی غنی [4] اور خفی[5] ہو۔ ‘‘
[1] سورۃ آل عمران؍ الآیۃ ۷۶۔
[2] سورۃ التوبۃ؍ جزء من الآیۃ ۴۔
[3] صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقائق، جزء من رقم الحدیث ۱۱ (۲۹۶۵)، ۴؍۲۲۷۷۔
[4] (غنیّ) سے مراد دل کا غنی ہونا ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ اور لیکن [حقیقی] تو نگری، تو دل کی تونگری ہے۔‘‘ (ملاحظہ ہو: شرح النووي ۱۸؍۱۰۰)۔
[5] (خفیّ) سے مراد ایسا شخص ہے جو عبادت میں انہماک اور اپنے کاموں میں مصروفیت کی بنا پر عام لوگوں میں مشہور نہ ہو۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱۸؍۱۰۰)۔