کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 72
والا ایسے ہی ہے، کہ گویا کہ اس نے اس سے لڑائی کی، اور اس سے لڑائی کرنے والا ایسے ہی ہے، کہ گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے لڑائی کی۔ [1] (۳) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوستی کا حصول تقویٰ کی جلیل القدر برکات میں سے ایک یہ ہے، کہ متقی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست بننے کے عظیم المرتبت اعزاز سے سرفراز ہوتے ہیں۔ توفیق الٰہی سے اس بارے میں دو حدیثیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں: ا: امام ابوداود نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ وہ بیان کرتے ہیں: ’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا بہت زیادہ تذکرہ فرمایا، یہاں تک کہ آپ نے [فتنہ الأحلاس] کا ذکر فرمایا۔ ایک کہنے والے نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! [فتنہ الأحلاس] کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ھِيَ ھَرَبٌ ، وَحَرَبٌ ، ثُمَّ فِتْنَۃُ السَّرَّائِ، دَخَنُھَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَھْلِ بَیْتِيْ، یَزْعَمُ أَنَّہُ مِنِّيْ، وَلَیْسَ مِنِّيْ، إِنَّمَا أَوْلِیَائِيْ الْمُتَّقُوْنَ۔‘‘ [2] ’’ وہ ایسا فتنہ ہے، کہ لوگ باہمی بغض و عداوت کی بنا پر ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے، آدمی کا سارا مال چھین کر اس کو تہی دست کردیا جائے گا، پھر نعمتوں کا فتنہ[3]ہوگا، اس کا دھواں
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۱؍۳۴۲۔ [2] سنن أبي داود، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، جزء من رقم الحدیث ۴۲۳۶، ۱۱؍۲۰۷۔۲۰۸۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود ۳؍۷۹۸؛ وسلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۲؍۷۰۲۔۷۰۳)۔ [3] اس سے مراد ایسا فتنہ ہے، کہ لوگ صحت، آسودگی اور بیماریوں اور وباؤں کے بعد عافیت پانے پر شاداں و فرحاں ہوں گے۔ (ملاحظہ ہو: عون المعبود ۱۱؍۲۰۸)۔