کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 69
عالی مرتبت ہوتا ہے، وہ تقویٰ ہے۔ آباء و اجداد کی بنا پر فخر کرنا، اس کی نہ تو لوگوں کے ہاں کچھ حیثیت ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی قابل وقعت بات ہے۔ [1] (۲) اللہ تعالیٰ کی دوستی تقویٰ کے عظیم الشان فوائد میں سے ایک یہ ہے، کہ وہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں شامل کروانے کا سبب ہے۔ اس حقیقت پر دلالت کناں نصوص میں سے دو درج ذیل ہیں: ا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {وَاللّٰہُ وَلِيُّ الْمُتَّقِیْنَ} [2] [اور اللہ تعالیٰ متقیوں کے دوست ہیں] ب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {إِنْ أَوْلِیَآؤُہٗ إِلاَّ الْمُتَّقُوْنَ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ}[3] [ان [اللہ تعالیٰ] کے دوست نہیں ہیں مگر متقی لوگ، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے] اس آیت کریمہ میں حصر ہے، کیونکہ اس میں نفی [إِنْ أولیاؤہ]کے بعد اثبات [إِلاَّ الْمُتَّقُوْن] ہے۔ اور اس کا فائدہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں کا تعین کرنا ہے۔اور اس سے مراد یہ ہے ، کہ متقیوں کے سوا ان کا اور کوئی دوست نہیں۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ [4] ولایت الٰہیہ کے ثمرات و فوائد: اللہ تعالیٰ کا کسی کو اپنا دوست بنانا معمولی بات نہیں۔ اس کے ثمرات و برکات انتہائی بیش قیمت ہیں۔ درج ذیل ارشاد ربانی اس حقیقت کو خوب واضح کرتا ہے: {أَ لَآ إِنَّ أَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ۔ لَھُمُ الْبُشْرٰی فِي الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ} [5]
[1] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۸؍۶۴۱۔ [2] سورۃ الجاثیہ؍ جزء من الآیۃ ۱۹۔ [3] سورۃ الأنفال؍ جزء من الآیۃ ۳۴۔ [4] ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۳؍۳۵۲۔ [5] سورۃ یونس؍ الآیات ۶۲۔۶۴۔