کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 67
’’ یَا أَیُّھَا النَّاسُ! أَلاَ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ، أَلا لاَ فَضْلَ لَعَرَبِيِّ عَلٰی عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيِّ عَلَی عَرَبِيِّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَی أَسْوَدَ، وَلَا لِأَسْوَدَ عَلَی أَحْمَرَ إِلاَ بِالتَّقْوَی۔ أَبَلَّغْتُ؟‘‘ قَالُوْا: ’’ بَلَّغَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔‘‘ [1] ’’ اے لوگو! خبردار بلاشبہ تمہارا رب ایک ہے اور یقینا تمہارا باپ [بھی] ایک ہے، خبردار کسی عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں، اور نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی سرخ کو سیاہ پر، اور نہ سیاہ کو سرخ پر، مگر تقویٰ کے ساتھ۔ کیا میں نے [پیغام] پہنچا دیا ہے؟ ‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے[پیغام] پہنچادیا ہے۔ ‘‘ ج: امام ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن دورانِ خطبہ ارشاد فرمایا: ’’ یَا أَیُّھَا النَّاسُ! إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَذْھَبَ عَنْکُمْ عُبِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَتَعَاظُمَھَا بِآبَائِھَا۔ فَالنَّاسُ رَجُلاَنِ: رَجُلٌ بَرٌّ تَقِيٌّ کَرِیْمٌ عَلَی اللّٰہِ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ ھَیِّنٌ عَلَی اللّٰہِ۔ وَالنَّاسُ بَنُوْ آدَمُ، وَخَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ مِنَ التُّرَابِ۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی:{یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ إِِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا إِِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ إِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ }‘‘ [2] [ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم سے زمانہ جاہلیت کی نخوت و تکبر اور باپوں کی بنا پر ایک دوسرے پر بڑا بننے کو ختم کردیا ہے۔ لوگ دو قسم کے ہیں: نیک اور متقی [جو کہ] اللہ تعالیٰ کے ہاں معزز شخص ہے اور بدنصیب اور فاجر [جو کہ] اللہ تعالیٰ کے نزدیک گھٹیا شخص ہے۔ [سب] لوگ
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۲۳۴۸۹، ۳۸؍۴۷۴۔ شیخ شعیب ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [اسناد کو صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۳۸؍ ۴۷۴)۔ [2] جامع الترمذي، أبواب تفسیر القرآن، سورۃ الحجرات، رقم الحدیث ۳۴۸۸، ۹؍۱۱۰۔۱۱۱۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ [ملاحظہ ہو: صحیح جامع الترمذي ۳؍۱۰۸]؛ نیز ملاحظہ ہو: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، المجلد السادس، القسم الأول؍ ۴۴۹۔۴۵۲؛ وصحیح سنن أبي داود ۳؍ ۹۶۴؛ وغایۃ المرام ص ۱۹۰)۔