کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 61
میں ترجیح دے۔]
تنبیہ:
علامہ خطابی نے تحریر کیا ہے ، کہ اس حدیث میں غیر متقی لوگوں کو بطورِ دعوت کھلانے سے منع کیا گیا ہے ، انہیں ضرورت و حاجت کی بنا پر کھلانے سے منع کرنا مقصود نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا۔}[1]
[اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔]
اور یہ بات تو معلوم ہے، کہ ان کے قیدی کافر تھے، نہ تو وہ مومن تھے اور نہ متقی۔[2]
(۱۳)
تقویٰ کا عزیمت والے کاموں سے ہونا
تقویٰ کے مقام و مرتبہ کو اُجاگر کرنے والی ایک بات یہ ہے ، کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو عزیمت والے کاموں میں سے قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ إِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ} [3]
[اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو ، تو بلاشبہ یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ ]
تقویٰ کے [عَزْم الامور] میں سے ہونے کی تفسیر کے متعلق تین اقوال درج ذیل ہیں:
ا: یہ ایسا کام ہے ، کہ جس کا عزم کرنا ہر ایک پر واجب ہے۔
ب: یہ وہ بات ہے ،کہ جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے۔
ج: تقویٰ اختیار کرنے والا شخص اصحاب عزیمت کا اجر و ثواب پائے گا۔
قاضی ابو سعود نے پہلے دو معانی بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: {مِنْ عَزْمِ الْأُمُور} یعنی
[1] سورۃ الدھر؍ الآیۃ ۸۔
[2] ملاحظہ ہو: معالم السنن ۴؍۱۱۵۔
[3] سورۃ آل عمران ؍جزء من الآیۃ ۱۸۶۔