کتاب: تقوی، اہمیت،برکات اور اسباب - صفحہ 60
ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لَا تُصَاحِبْ إِلاَّ مُوْمِنًا ، وَلَا یَأکُلْ طَعَامَکَ إِلاَّ تَقِيٌّ۔‘‘[1] [تم صحبت اختیار نہ کرو مگر مومن کی ، اور تمہارا کھانا نہ کھائے مگر متقی۔] ملا علی قاری شرح حدیث میں تحریر کرتے ہیں: ’’وَلَا یَأکُلْ طَعَامَکَ إِلاَّ تَقِیٌّ۔‘‘ یعنی مومن یا پرہیز گار، جوکہ کھانے سے حاصل شدہ قوت کو الملک العلام کی عبادت میں صرف کرے ، اور حدیث کا معنی یہ ہے، کہ تو اپنا کھانا متقی کے علاوہ کسی اور کو نہ کھلانا۔ [2] علامہ خطابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر متقی کی صحبت ، اس سے میل جول اور اس کو کھلانے پلانے سے، اس لیے منع فرمایا ، کیونکہ اس سے دلوں میں باہمی اُلفت و مودت پیدا ہوتی ہے، تو گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص متقی اور پرہیز گار نہیں، تم اس کے ساتھ اُلفت نہ رکھو، اور نہ ہی اس کو ساتھی بناؤ، کہ تم اس کا ہم پیالہ اور ہم نوالہ بن جاؤ۔ [3] امام ابن حبان نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان قائم کیا ہے: [ذِکْرُ الْاِسْتِحْبَابِ لِلْمَرْئِ أَنْ یُؤثِرَ بِطَعَامِہِ وَصُحْبَتِہِ الْأَتْقِیَائَ وَأَھْلَ الْفَضْلِ۔][4] [اس بات کے پسندیدہ ہونے کا ذکر، کہ آدمی متقیوں اور اہل فضل کو اپنے کھانے اور صحبت
[1] المسند، رقم الحدیث ۱۱۳۳۷،۱۷؍۴۳۷؛ وسنن أبي داود، کتاب الأدب، باب من یؤمر أن یجالس ، رقم الحدیث ۴۸۲۲، ۱۳؍۱۲۳؛ وجامع الترمذي، أبواب الزھد عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ماجاء في صحبۃ المؤمن، رقم الحدیث ۲۵۰۶، ۷؍۶۴۔۶۵؛ والإحسان في ترتیب صحیح ابن حبان، کتاب البر والإحسان،باب الصحبۃ والمجالسۃ، رقم الحدیث ۵۶،۲؍۳۲۰۔ الفاظِ حدیث سنن أبي داود کے ہیں۔ شیخ البانی نے اس کو [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود ۳؍۹۱۷؛ وصحیح الجامع الصغیر وزیادتہ ۶؍۱۵۸)؛ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے [ اس کی اسناد کو حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۱۷؍۴۳۷)۔ [2] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۸؍۷۵۰۔ [3] ملاحظہ ہو: معالم السنن ۴؍۱۱۵۔ [4] الإحسان في ترتیب صحیح ابن حبان ۲؍۳۲۰۔